اسماعیل میرٹھی 1844ء میں پیدا ہوئے۔ شیخ پیر بخش ان کے والد کا نام تھا۔ جیسا کہ اُس زمانے میں ہوتا تھا، عربی فارسی کی تعلیم گھر میں حاصل کی‘ پھر رُہڑکی انجینئرنگ کالج سے ڈپلومہ لیا۔ پہلے ایک سرکاری دفتر میں کلرک لگے‘{ پھر آگرہ کے گورنمنٹ سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 1899ء میں ریٹائر ہوئے۔
اسماعیل میرٹھی کی وجہ شہرت اُن کی وہ شاعری بنی جو انہوں نے بچوں کے لیے کی۔ وہ ہندوستان میں اُس ادبی مہم کا حصہ تھے جو مُفرّس (فارسی زدہ) اور مُعرّب (عربی زدہ) اُردو کو آسان بنانا چاہتی تھی۔ سر سید اور ان کے رفقا‘ اسی ادبی مہم کے نمایاں افراد تھے۔ محمد حسین آزاد بھی اسی قافلے کے مسافر تھے! اسماعیل میرٹھی گل و بلبل کی شاعری ناپسند کرتے تھے۔ محبوب کی کمر اور سانپ جیسی زلفوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حقیقت پسندانہ شاعری کی، مناظرِ فطرت پر توجہ دی۔ بچوں کے لیے ایسی شاعری کر گئے جو آج تک پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے۔
اس کالم نگار کے بچے جب پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو ان کے لیے کلاسک جمع کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ صوفی تبسم کی ٹوٹ بٹوٹ اُن دنوں آئوٹ آف پرنٹ تھی۔ ایک نسخہ کوئٹہ میں ایک بُک شاپ سے ملا۔ انار کلی میں کتابوں کی گودام نما دکانیں تھیں، تلاش بسیار کے بعد حفیظ جالندھری کی نظموں کی کتاب ہاتھ آئی۔ اسماعیل میرٹھی کی کلیات کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ معلوم ہوا ناصر زیدی صاحب کے پاس ایک نسخہ ہے۔ ان سے لی اور فوٹو کاپی کرائی!
اسماعیل میرٹھی کی نظمیں شہرت کے آسمان پر پہنچیں اور آج تک ہر نسل نے ان سے استفادہ کیا۔ کئی اشعار ضرب المثل ٹھہرے۔ ’’بارش کا پہلا قطرہ‘‘ تو سبھی کو یاد ہو گی: ؎
گھنگھور گھٹا تُلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
کیا کھیت کی میں بجھائوں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیاناس
پھر یہ بھی ؎
سچ کہو سچ کہو ہمیشہ سچ
ہے بھلے مانسوں کا پیشہ سچ
’’گرمی کا موسم‘‘ سے یہ شعر کسے یاد نہ ہو گا ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
گائے والی نظم یوں شروع ہوتی ہے ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
’’جگنو اور بچہ‘‘ والی نظم‘ کمال کی نظم ہے
سنائوں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
بچہ جگنو کو پکڑتا ہے ؎
چمک دار کیڑا جو بھایا اُسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اُسے
’’پن چکی‘‘ پر بھی نظم کہی ؎
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکّی
ان کے تین مخمّس (ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوتے ہیں) بہت مشہور ہوئے‘
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
دوسرا ’’صبح کی آمد‘‘ جس میں یہ سطر بار بار آتی ہے
اُٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
اور تیسرا
کئے جائو کوشش مرے دوستو
تاہم ان کی جو نظم بہت مشہور ہوئی اور آج تک حسبِ حال ہے‘ وہ کوّوں کے بارے میں ہے ؎
کوّے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی پر بھی کالے
کالی کالی وردی سب کی
اچھی خاصی ان کے ڈھب کی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں جا لگتی ہے چُھری سی
کوّے کی ایک عادت شاعر کو اچھی بھی لگی ؎
یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
کُچھ بھی نہ چھوڑے پاک نہ گندہ
اچھی ہے پر اس کی یہ عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے
انسان کے بچے کے ساتھ کوّے کا سلوک دیکھیے
اُچھلا کودا لپکا سکڑا
ہاتھ میں تھا بچے کے ٹکڑا
آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پُھرتی کاگا!
کوّا استحصال اور ظلم و جبر کی علامت بھی ہے۔ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیے: ؎
پیڑ پہ تھا چڑیا کا بسیرا
اس کو ظالم نے جا گھیرا
ہاتھ لگا چھوٹا سا بچّا
نوچا پھاڑا کھا گیا کچّا
پھر مکّی کی فصل پکنے پر آئی تو کوّوں نے خوب داد عیش دی ؎
پکنے پر جب مکّا آئی
کوّوں نے جا لوٹ مچائی
مکی کی فصل کا رکھوالا کوشش کرتا ہے مگر کوّے اصل میں ڈاکو ہیں، کہاں باز آتے ہیں ؎
رکھوالے نے پائی آہٹ
گوپھن لے کر اُٹھا چھٹ پٹ
’’ہریا ہریا‘‘ شور مچا کر
ڈھیلا مارا تڑ سے گھما کر
سُن کے تڑاقا کوّا بھاگا
تھوڑی دیر میں پھر جا لاگا
لالچ خورا ڈھیٹ‘ نڈر ہے
ڈاکو سے کُچھ اس میں کسر ہے؟
ڈاکو ہے یا چور اُچکّا
پر ہے اپنی دُھن کا پکّا
کل سے یہ نظم ہتھوڑے کی طرح ذہن پر برس رہی ہے۔ ضرب پڑتی ہے تو چھن کی آواز آتی ہے‘ ذہن چھلنی ہو ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے دماغ کے ٹکڑے اُڑ کر اِدھر اُدھر جا پڑیں گے، جیسے دھماکہ ہو تو ہر طرف لوہے کی بارش ہوتی ہے۔ دھواں اس قدر ہے کہ رگ رگ میں اندھیرا گُھس رہا ہے۔ ہڈیوں کے گودے میں جیسے تیز آنچ بھری جا رہی ہے۔ حکمران قبیلے کے ایک فرد کی اسلام آباد ضلع کچہری میں تلاشی لینے کی ناقابل معافی غلطی ایک سرکاری اہلکار سے کیا سرزد ہوئی بھونچال آ گیا۔ اہلکار کو تھپڑ رسید کیا گیا، دھکے دیے گئے۔ یہ سب کچھ تو ہوا مگر دیکھیے‘ کوّے متحد کیسے ہو گئے!
سابق چیئرمین سینیٹ کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ برہم ہو گئے اور آئی جی اسلام آباد کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: وہ معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھائیں گے۔ واقعے کے بعد سابق چیئرمین سینیٹ کو موجودہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، خورشید شاہ‘ شیری رحمان‘ بلاول بھٹو کے سیکرٹری جمیل سومرو‘ قمر زمان کائرہ‘ تسنیم قریشی‘ نذر گوندل‘ زمرد خان‘ مرتضیٰ ستی نے فون کر کے ’’حالات سے آگاہی‘‘ حاصل کی۔
’’حالات سے آگاہی‘‘ سے کیا مراد ہے‘ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے! یعنی یکجہتی کا اظہار! اور پولیس کی، دوسرے لفظوں میں قانون کی مذمت! اتحاد کا اس سے بڑا مظہر کیا ہو گا کہ قمر زمان کائرہ بھی‘ جن کی نسبتاً شہرت مثت ہے‘ احتجاج کر رہے ہیں کہ ’’گرفتاری کی کوشش ہوئی تو مزاحمت کریں گے‘‘۔
پولیس جو چاہے کر لے‘ آئی جی صاحب ہو سکتا ہے ڈٹ بھی جائیں مگر کوئی گرفتار ہو گا نہ مقدمہ چلے گا! اللہ کے بندو! کبھی کوئی کوّا بھی پکڑا گیا ہے؟ کوّوں کو کُھلی چھٹی ہے۔ چاہیں تو غریب کے بچے سے روٹی کا ٹکڑا چھین لیں، چاہیں تو چڑیا کے معصوم بچے کا پیٹ پھاڑ دیں، چاہیں تو فصل کو اجاڑ کر رکھ دیں۔
کیا آپ نے کبھی نہیں دیکھا کہ کوّے متحد ہو جائیں تو کائیں کائیں کی آواز سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور وہ ہاہاکار مچاتے ہیں کہ سننے والے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں!
آپ کا کیا خیال ہے صرف پیپلز پارٹی کے رہنما سابق چیئرمین کو فون کر کے ’’حالات سے آگاہی‘‘ حاصل کر رہے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں!‘‘ سیاست دان‘ اپوزیشن کے ہیں یا حزب اقتدار کے، ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب تک ہر پارٹی کے سرکردہ رہنما ’’حالات سے آگاہی‘‘ حاصل کر چکے ہوں گے!
اس ملک میں سورج مغرب سے نکل سکتا ہے، ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں‘ کبوتری انڈے کے بجائے براہ راست بچے کو جنم دے سکتی ہے مگر عوامی نمائندے قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے۔ دولت ان کے آگے پیچھے دائیں بائیں حصار میں باندھے کھڑی ہے‘ استحقاق کی تحریکیں چھتریاں بن کر ان کے سروں پر تنی ہیں! کوئی عدالت‘ کوئی پولیس‘ کوئی قانون پاکستانی سیاستدانوں کی اپر کلاس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی! پاناما لیکس ہوں یا سوئٹزرلینڈ کے مقدمے‘ کچہری کی تلاشی ہو یا ایئرپورٹوں پر قانون کے تقاضے‘ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا! کیا آپ کو یاد نہیں‘ جب نواز شریف مشکل میں تھے تو زرداری صاحب بنفس نفیس رائے ونڈ پہنچے! جب یوسف رضا گیلانی کی ضمانت کینسل کرانے کے لیے ایف آئی اے نے کراچی اپیل کی تو نواز شریف حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل‘ اُڑ کر پہنچے اور اپیل واپس کرائی!
یاد رکھیے ؎
کوّے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی پر بھی کالے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“