صاحبو! اہالیانِ کراچی کا پہاڑوں سے اتنا ہی تعلق ہےجتنا بھلےوقتوں میں ہل پارک اور موجودہ دورمیں کٹی پہاڑی سے
اب آپ خود قیاس کر لیجیئے کہ اس محدود ٹوپوگرافیکل ایکسپوژر کے ساتھ ایک کراچیائیٹ نےایک ہی جست میں خود کو اصلی فرنٹیئرمارکہ کوہاٹی پہاڑوں کےدرمیان پایا ہوگا تو کیا عالم ہو گا
فرام ہل پارک ٹوخدِمخ
ـــ
کراچی سےآ ل داوے کوہاٹ لےجانے والی آئی ایس ایس بی کی چٹھی تھی جوتاج محل ہوٹل کے بالمقابل آرمی سلیکشن اینڈریکروٹمنٹ والوں نے ہمیں تھمائی تھی
یقین نہیں آتاتھا کہ سرکو اپنے آخری عمودی زاویے پر گھمائے ہم جن دیوہیکل سرمئی ستونوں کودیکھ رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ کوئی طلسم خدا جھوٹ نہ بلوائے پہلی نظرکے طلسم سے باہرنکلنے اور کوہستانی حقیقت تسلیم کرلینے کے بعد ہم تو آئی ایس ایس بی سنٹرمیں بقیہ وقت بوکھلائے بوکھلائے پھرے کہ یہ پہاڑ ہمارے اوپراب گرے کہ تب گرے۔
ٹیسٹوں پر بالکل بھی فوکس نہیں کر پائے ۔ غالباً اسی لیے سیلیکٹ بھی ہوگئے۔
ہم نے چواطراف اس طرح کی افقی حدبندی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہاں کے لوگ عروضی سیدھ میں تاحد نظرکیسے دیکھتے ہیں اورجب دیکھ نہیں پاتے تو کیا کرتے ہیں
واپسی کے سفرمیں پشاوردیکھنے کی خواہش میں کوہاٹ سے درہ آدم خیل کاسفربراستہ کوتل پوسٹ کیا تو رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے اس ساری روداد تک تو ہم سمجھا کیے کہ پہاڑ دیکھ کرعبرت پکڑنے کی چیز ہیں
بہت ہواتو گئے وقتوں کے لوگ ان کےدروں میں تراش خراش کر کے جو سڑکیں بچھا گئے ان پر دل دہلاتا سفر کرنے کے علاوہ ان کا کوئی خاص مصرف نہیں
اکیڈیمی وہ جگہ تھی جہاں پتہ لگا کہ پہاڑ دیکھنے کے لیے نہیں ان پر چڑھنےکےلیے بنائے گئے ہیں۔
نئے نویلے فارمی چوزے جب کاکول براجے تو ٹوبےکیمپ میں میرپور کے پہاڑ پہلا مسکن ٹھہرے
اور ان میں سب کا سرخیل سب سے بلند پوائنٹ فائیو سکس سکس زیرو
اس کیڈٹ بیزارچوٹی کا جو رائج الوقت نام تھا اسے یہاں تحریرکرنا مناسب نہیں کہ ایسا کرنے میںآفیشل سیکرٹ ایکٹ سے زیادہ فساد خلق کا اندیشہ ہے تو صاحب پوائنٹ فائیو ۔۔۔۔ سے لے کرایبٹ آباد اینڈ سراؤنڈنگ کی تقریباً تمام بلندیوں کا طواف کرلینے کے بعد جب ہم پاس آؤٹ ہوئے تو ہمارے نام کا پہلاسرناواں وہ گلیشئر تھا جس کے نام کو بہت سے گلابوں سے مطلب ہے
ہمیں وہ دن یاد ہے کہ جس دن یونٹیں اناؤنس ہوئی تھیں امی کو جو دل ہی دل میں کراچی پوسٹنگ کی دعا اور آس لگائے بیٹھی تھیں جب سکردو کی نوید سنائی تو انہوں نے بے قراری سے پوچھا اوہ کتھے وے
ماں کا دل رکھنے کو تازہ تازہ افسر نے کہہ دیا کہ ماں جی حیدرآباد دے نیڑے نیڑے جے اور امی جی نے جھٹ مان لیا کہ شکر اے منڈا گھروں دور نئیں گیا سکردو سے بہت آگے ایک دن کی مسافت میں دریائے سندھ کے تنگ ہوتے پاٹ کے کنارے ہم ایچ ایم ٹی سے اترے تو ہماری پذیرائی کو آئے درہ آدم خیل کے لیفٹیننٹ اللہ نورآفریدی نے ہمیں ہمارے رک سیک کے ساتھ ایک ہی سانس توڑ چڑھائی میں شیردل عباسیہ کی گن پوزیشن پر پہنچا کر دم لیا جو سانس پہلے ہی دن اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہو گیا الحمدللہ وہ ہمالیہ کی بلندیوں سے واپس اترنے تک اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہا
تو صاحبو کتاب وفا کا پہلا سبق ہمالیہ کے پہاڑ تھے
میجر جبارکی پاپا بیٹری کی خاک چھان کر افسر نے دریائے شنگھو کے بہاؤ کے ساتھ کیپٹن نعیم کی شاگردی میں پیش ہونا تھا یہ وہی کیپٹن نعیم ہیں جو ہمالیہ کی پورے اور ادھورے چاند کی راتوں میں کسی محبوب کاندھے کے تل کو یاد کر کے افسردہ ہو جایا کرتے تھے
ایک سو سولہ چاند کی راتیں ایک تمہارےکاندھے کا تل
مگر فی الوقت انہوں نے محاذ پروارد تازہ افسرکی سرکوبی کے لیے اسے یکے بعد دیگرے چند چوٹیوں کی بھینٹ چڑھاناتھا
یہ ان دنوں کی مہم جوئی کا ذکرہےکہ سپاہی علی کی ہمراہی میں ایک پوسٹ کی جان توڑچڑھائی اور پھراترائی کے راستے پر دریائے شنگھو کے پانیوں کی سنگت میں یہ دل پہلے پہل پہاڑوں کی محبت کا اسیرہوا
ہمالہ کی گود میں جنم لینے والا یہ رومان کشاں کشاں اورکزئی ایجنسی کے سنگلاخ پہاڑوں میں پروان چڑھا
واپس کوہاٹ کی آشنا زمینوں کو پلٹی یہ بلا خیز محبت ہنگو کے راستے چلی تو دوآبے سے کچھ آگے درسمند کے قسم دیے پہاڑوں سے پار دریائے کرم کی نشیبی وادی میں خدمخ کی اسیر ہوئی
خدمخ ٹل کا پہاڑ جسے اہالیان بالا حصار پری چہرہ کے رومانوی نام سے پکارتے ہیں
اپنے پڑھنے والوں کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش خدمت ہے مانی جنکشن کے صفحوں سے ٹل کی یہ کہانی
اس میں کچھ کچھ ہمالیہ کی مہم جوئی کی جھلک ہے اور پھرٹل سے ایک محبت کی داستان
ایک محبت جو خدمخ سے ہوگئی تھی
لنک
صاحبو، فرنٹئیرکا لینڈسکیپ بہت چالباز ہے، یہ دل پرپہاڑوں، پتھروں اوربےآب وگیاہ میدانوں کی محبت کا وارکھیلتا ہے
اورفرنٹئیرکی محبت بڑی ظالم ہے کہ یہ دل کو پتّی پتّی کرکے بکھیردیتی ہے
ځاونده ماګل دَ ګلاب کړی
چه دَ جانان په غیـږ کنبر پانړے، پانړے شمہ
اے خدا مجھے گلاب کا پھول بنادے
کہ میں محبوب کی آغوش میں پتّی پتّی ہوکربکھرجاؤں
“