زمین پر سورج کتنے قرنوں سے طلوع اورغروب کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ اندازہ تخمینہ لگناممکن ہی نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے محورمیں گھوم رہے ہیں۔ چاند، ستارے، سورج، زمین، انسان، چرندپرنداوردکھ سکھ….. سب گھوم رہے ہیں۔
اپنے اپنے حصے کی عمریں پوری کررہے ہیں۔
وہ بھی ایک ایسی ہی صبح تھی۔
میں مسجدکے صحن میں بیٹھا کھلتی صبح کے اوراق گن رہاتھا۔
ایک شخص جس نے میلی سی پگڑی باندھ رکھی تھی، میرے پاس آکربیٹھا اوردھیرے سے کہا۔
جی وہ خیرولوہارمرگیاہے۔ اس کے مرنے کا اسپیکر پر اعلان کردیں۔ اس کے چہرے پردکھ کاکوئی پَرتونہیں تھا۔
کیا کہا…..؟
خیرولوہارمرگیا…..! کل تک تووہ بھلاچنگاتھا۔
کھلتی صبح کے اوراق بے ترتیب ہوگئے۔ مسجد کے گنبدوں سے نکلنے والاایک سا اعلان….. ’’حضرات، ایک ضروری اعلان سنیں۔ خیرمحمد لوہارقضائے الٰہی سے فوت ہوگیاہے۔ اس کی نمازِ جنازہ دن کے گیارہ بجے عیدگاہ میں اداکی جائے گی۔ ‘‘
اس کا پورانام شاید زندگی میں دوسری بارلیاگیاتھا۔ پہلی بارجب اس کے ماں باپ نے رکھاہوگا اوراب دوسری بار اس کی موت پر۔ فضامیں چپ سی گھل گئی۔
میں یقین اوربے یقینی کے کندھوں پرہاتھ رکھے مسجد سے باہرآیا توسامنے کے احاطے سے صدوبھینسوں کی پیٹھ تھپکتا باہرنکل رہاتھا۔
اس کے چہرے پرصرف کام کی تھکن تھی۔ اسے ساتھ لے کر جب میں خیروکے گھرٹوٹی لکڑیوں کے ادھ کھلے گیٹ سے اندرداخل ہوا توکچے کمرے کے سامنے کچے صحن میں ایک چارپائی پر خیرو اَبدی نیندسورہاتھا۔ اس پر اُس کے کردارکی طرح سفیدچادرتھی۔ بے داغ، اجلی اجلی، دھلی دھلی….. وہ مجھے ہمیشہ میلے کپڑوں میں نظرآیا۔ اس کے مکمل نام کی طرح میں نے پہلی باراسے اجلی چادرمیں دیکھا۔
دری پردوعورتیں اپنے سامنے رکھی چائے کی کیتلی میں سے کم دودھ والی چائے پیالیوں میں ڈال رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں اورچائے کا رنگ ایک جیساتھا۔ نیم کے درخت تلے اکیلی چارپائی پراس کا نیم پاگل بیٹااپنی داڑھی کھجارہاتھا۔ لوہے کے اوزار خاموش تھے۔ چھوٹی سی بھٹی جس میں کوئلے اس کے سینے میں دبے ارمانوں کی طرح دہکا کرتے تھے اوراس میں دھواں اس کے سانس کی طرح آہیں بھرتانکلتاتھا۔ آج خیروکاسینہ اوربھٹی دونوں خاموش تھے۔
جتنی تیزی سے بستی کے اسپیکروں پراس کی موت کا اعلان ہوا اتنی تیزی سے ایک بھی شخص اس کے گھرنہ پہنچا۔ اس کی ایک بیٹی کو دورمیں نے کھیتوں میں باپ کے سائے کے بجائے شیشم کے سائے تلے کھڑادیکھا۔ وہ اکیلی کھڑی رورہی تھی۔ اس کے سرپرپھٹادوپٹہ اورپاؤں میں ٹوٹی چپل تھی۔ نوبجے جب کفن پہنچاتواس وقت دو کی بجائے چارعورتیں بیٹھی تھیں۔ کوئی ہوک، کوئی کوک نہ تھی۔ عجب سناٹاتھا۔ میرادم گھٹنے لگا۔
موت کے قدموں کی چاپ سننے میں باہرنکلا۔ زندگی معمول پرتھی۔ کسی نے بھی اس کی موت کا نوٹس نہ لیا۔ کسی زبان پر اس کا تذکرہ نہ تھا۔ ابھری ہڈیوں، دھنسے گالوں، بڑھی شیو اورکرخت ہاتھوں والا خیرولوہارگاؤں والوں کے درمیان نہ تھا۔ غربت نے اس کا لہو چوس کرہڈیوں پرصرف چمڑہ رہنے دیاتھا۔ اس کی ہڈیاں اس کی مفلسی کی طرح نمایاں تھیں۔ اس کی صحت گرتی رہی۔ سناہے اسے یرقان تھا۔ اسے کوئی سنبھالنے والانہ تھا۔ زمین نے جب زندہ انسانوں کی بے حسی دیکھی تواسے اپنی آغوش میں سلالیا۔ وہ خوش قسمت تھا اسے جمعہ کا دن نصیب ہوگیا۔
میں سوچنے لگا اس کی تاریخِ وفات کون نکالے گا…..؟ اس پرکس اخبارکاایڈیشن اورکس رسالے کا نمبرنکلے گا…..؟ غریب کے جنازے پرکس کا انتظارہوتاہے۔ میں پونے گیارہ بجے وضوکرکے گھرسے نکلا توجنازہ عید گاہ جاچکاتھا۔ وہاں پہنچاتوصفیں ترتیب پارہی تھیں۔ شرینہہ کے درختوں تلے لوگ اپنی اپنی باتوں اورمسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ گندم کی بالیاں پک چکی تھیں۔ جنازے پرخاموشی کی بجائے گندم کی کٹائی سے لے کرتھریشرتک کے معاملات زیرِ بحث تھے۔ علاقے میں ہونے والی گھوڑوں کی دوڑ بھی موضوعِ سخن تھی….. کون جیتا، کون ہارا…..؟ امام صاحب نمازِ جنازہ پڑھانے کا طریقہ بتارہے تھے….. نماز جنازہ….. فرض کفایہ….. چار تکبیریں….. ثناء واسطے اﷲ تعالیٰ کے، درود واسطے حضرت محمدا کے….. دعاواسطے حاضرمیت کے….. اﷲاکبر….. بھنبھناتے لوگوں کی دوصفوں کو توڑکرطاق کیاگیا۔
صفیں ٹوٹنے کے بعدجب جنازہ کندھوں پراپنی منزل کوچلاگیا تولوگ چندقدم اس کے ساتھ چلے۔ پھراپنے اپنے گھروں کو مڑگئے۔ نہرکے کنارے شیشم کے درختوں کے نیچے اس کا جنازہ جارہاتھا۔ چارپائی اٹھانے والوں کے علاوہ پانچ سات آدمی ساتھ تھے کہ اسے دفن کرناضروری تھا، وگرنہ شاید وہ بھی لوٹ آتے۔
میں ایک دکان پررک گیا۔ کچھ لوگ اکٹھے تھے۔ میں نے سوچا، یقینی طورپرخیرولوہارکی باتیں ہورہی ہوں گی۔ لیکن وہ تواپنے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ تھوڑاآگے گیاتوخیروکاہمسایہ آرے پربیٹھاگپیں ہانک رہاتھا۔ دوقدم جنازہ گاہ تک نہ جاسکا۔ اگلی صبح بستی کے منیاری کے کھوکھوں، گوشت کی دکان، راہوں اورہٹیوں کے قریب میں نے لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا۔
طیفے مرغی والے سے جاکرمیں نے پوچھا۔
یارطیفے….. خیروکابڑا گہرادکھ ہے۔
جی جی….. اس نے مرغی کی کھال کھینچتے ہوئے کہا۔
اسلم نائی سے بات کرنی ویسے ہی فضول تھی۔ اس کی دکان میں لگے دیسی ڈیک سے علاقائی گلوگارعطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کی آواز پورے زورسے گونج رہی تھی…..
’’قمیض تیڈی کالی….. تے سوہنڑے پھُلاں والی‘‘
وہ موسیقی کی دھن پرایک آدمی کی شیوبنارہاتھا۔ سائیکلوں کی دکان پربیٹھا سفید ریش شخص پنکچرلگارہاتھا۔ دوسا کھوکھے والا قریبی شہرسے سائیکل پرتازہ سبزی اورسوداسلف لارہاتھا۔ آرائیوں والی ہٹی پرحسبِ معمول رش تھا۔ بشیرآرائیں اپنے ستے ہوئے چہرے سمیت ماتھے پربل ڈالے گاہکوں کو بھگتارہاتھا۔ بستی کی پُلی پرچائے کے دوچھپرہوٹل تھے۔ وہاں دوٹریکٹرکھڑے تھے۔ مزدورٹھٹھہ مخول کرتے چائے پی رہے تھے۔
توکیا کسی کو بھی خیروکی موت کا دکھ نہیں ہے۔
کوئی توان کو خبرکرے۔
لوگو….. خیرولوہارمرگیا۔
ہم میں سے ایک انسان کم ہوگیا۔
وہ علاقے کا نہ سہی گھرکا توسربراہ تھا۔
کل تک گاؤں کی پگڈنڈیوں پراپنا گدھا ہانکتا، میلے دانتوں میں اجلی مسکراہٹ لیے سرہلاتا، دوہڑے الاپتا وہ شخص کہاں گیا…..؟
وہ توتمہارے ہردکھ میں رہا۔ تم لوگ اس سے اپنی درانتیاں تیزکراتے تھے، ہلوں کے پھالے، ترینگل اورکھرپیاں بنواتے تھے۔ گم چابیوں والے تالے تڑوایاکرتے تھے۔ تمہاری آنکھیں کیوں عقیدتِ غم سے خالی ہیں۔
خیروکی رسمِ قل اس کے مرنے کے بتیس گھنٹے بعداداکردی گئی۔
گلی کے موڑپربچھی چارپائی پراس کا اداس بھائی، بیٹافیضو اورایک ریٹائرڈ سپاہی رہ گئے۔
سڑک پرسے گزرنے والے سائیکل سواراورتانگے والے گردن موڑکرایک نظردیکھ لیتے۔ کوئی اِکا دُکا فاتحہ خوانی کے لیے رک جاتا۔
اچانک…..
ایک بے حس آواز کے بے جان پتھر نے ان کے درمیان رکھے خاموشی کے برتن کوکرچی کرچی کردیا۔
فیضوکے سامنے درانتیاں اورٹوکے رکھے تھے۔