تاریخ کے مطالعہ کا مقصد
پچھلے دنوں ''جنت کے پھول'' واٹس ایپ گروپ اور دیگر کئی اخبارات میں ''معمار تھے جو مستقبل کے، روتے ہیں گزشتہ عظمت کو!'' اس مضمون کا مطالعہ کیا تو ایک عجیب سی کیفیت دل و دماغ پر طاری ہوگئی کہ مضمون نگار نے کیا خوب اندازِ بیاں کے ذریعہ مطالعہ کی مقصدیت سے قاریین کو روشناس کرایا ہے۔ یہ مضمون جامعہ کے طالب علم فواز جاوید خان نے لکھا ہے۔
عام طور پر ہم طلبہ کسی بھی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مقصد کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، اسی وجہ سے ہم مقصد کو پانے سے محروم ہو جاتے ہیں، اس مضمون سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مطالعہ کرتے وقت مقصد کو سامنے رکھنا ہے۔
مضمون نگار نے تاریخیت کے پہلو پر روشنی ڈالی ہے جس سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کا حال اُس کے ماضی سے جڑا ہوتا ہے. ماضی کی شخصیات تو ضرور مرجاتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ اور چھوڑے ہوئے اثرات نہیں مرتے، معاشرہ ان اثرات کو لیے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے جیسے جوانی بچپنے سے جڑی ہوتی ہے اور عمر رسیدہ اپنی جوانی کو نہیں بھولتا۔
اور ہاں کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جائے تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی گناہ کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے بچے کہ کوئی کچرے کے ڈھیر پر پھینک جائے اور وہ اپنے حقیقی نام و نسب کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے …
جس طرح مضمون نگار نے بتایا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ صرف برکت و سعادت کے حصول کے لئیے نہ کیا جائے اسی طرح ابن خلدون بھی قوموں کی سرفرازی اور ناکامی کے اسباب بتائے ہیں۔کہ ہمیں تاریخ کا مطالعہ نئے زاویے سے کرنا ہے، جس کا مقصد ناک بھوں چڑھانا نہ ہو، اور علامہ محمود محمد شاکر کے بقول بے جان روح میں جان ڈالنا اور اتھاہ گہرائی سے نکل کر اپنے زمانے کو سمجھنا، ماضی کو حال سے جوڑنا، وقائع سے حقائق نکالنا، غیر جانبداری برتنا، مؤرخین سے جہاں سہواً یا عمداً لغزش ہوئی ہے اُس کی حقائق سے اصلاح کرنا۔ہمیں چاہیے کہ مسلم مؤرخین کی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں۔
کیونکہ مسلم مؤرخ کے نزدیک اخلاقی اور ایمانی پیمانہ سب سے اہم ہوتا ہے اس لئے اُن کے تذکروں میں اخلاقی بے ضابطگی سے وہ صرف نظر نہیں کرتے۔ ہماری وسعت نظری اور دیانت داری ہی جدید مؤرخ کے نزدیک ہمارا عیب ہے۔جدید مؤرخ کے نزدیک اپنے عیوب ہی بیان کرتے چلے جانا تاریخ کا صحیح مطالعہ ہے۔ ہمیں اپنا نقطہ نظر محولہ بالا اصولوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔ اجتماعی شعور کا احساس زندہ قوم کا شعار ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں، تاریخ کو پڑھنا اور اُس کے نتائج اپنے زمانے میں محسوس کرنا اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا، زندہ قوموں کیلئے یہ تینوں کڑیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...