ہانیہ بیٹا کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ؟
جی مما جانی ۔
ہانیہ تم اتنی ضدی تو نہیں تھی بیٹا ۔
فاطمہ بیگم نے تاسف سے اپنی لاڈلی کی طرف دیکھا ۔ ۔
کیا کمی ہے احمر میں ؟ گھر کا لڑکا ہے اور تم جانتی ہو نا مجھے کتنا پسند ہے ۔ ۔ اچھے لڑکے بہت مشکل سے ملتے ہیں ہانیہ اور جن لڑکیوں کے سر پہ باپ کا سایہ نہ ہو انہیں تو آجکل کوئ پوچھتا بھی نہیں ۔
فاطمہ بیگم نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنی لاڈلی کی طرف دیکھا تھا اور اپنی مماجانی کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر ہانیہ تڑپ اٹھی تھی ۔
مماجانی پلیز ۔ ۔ ۔ ۔ ہانیہ نے ملتجی انداز میں انکی طرف دیکھا ۔
یہ تمہارے بڑے پاپا کی خواہش ہے ہانیہ ان کی خوشی کیلئے ہی مان جاو ۔ ۔ ۔ فاطمہ بیگم نے ایک مرتبہ پھر اسے رام کرنے کی کوشش کی ۔
مما جانی مجھے بہت نیند آرہی ہے ۔ پلیز جاتے ہوئے لائٹ آف کر دیجئے گا ۔ ہانیہ نے نگاہیں چراتے ہوئے کہا اور رخ بدل کر لیٹ گئ ۔۔ اوکے بیٹا مگر تمہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ تم مجھے اور اپنے بڑے پاپا کو کبھی بھی مایوس نہیں کرو گی ۔۔ ۔ ۔ مما جانی نے ایک مرتبہ پھر بڑے مان سے کہا اور لائٹ بند کر کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔
یہ تم نے مجھے کس موڑ پہ لا کر کھڑا کردیا احمر ہمدانی ۔ ۔ ۔ کیوں میراضبط آزما رہے ہو آخر ؟؟؟
کس بات کی سزا دے رہے ہو مجھے ۔ وہ ساری رات ہانیہ نے بہت کرب کے عالم میں گزاری تھی اور جس کی خاطر وہ یہ سب کر رہی تھی وہ پوری دنیا کو فراموش کئیے بڑے سکون سے سو رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ ہمدانی کی عمر چار برس تھی جب اس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ۔ فاطمہ بیگم نے کم عمری میں ہی بیوگی کی چادر اوڑھ لی تھی مگر سب کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ دوسری شادی کیلئے رضامند نہ ہوئیں اور اپنے شوہر کے گھرپر ہی رہنے کو ترجیح دی ۔ خضر ہمدانی اپنے جان سے پیارے بھائی کی موت پر اندر سے ٹوٹ چکے تھے وہ اپنے بھائی کی آخری نشانی کو خود سے دور نہں بھیجنا چاہتے تھے انہوں نے کبھی بھی ہانیہ کو باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ ۔ اپنے اکلوتے بیٹے احمر سے بڑھ کر انہوں نے اپنی بھتیجی کا خیال رکھا تھا اور اب تو ہانیہ کا رشتہ مانگ کر انہوں نے فاطمہ بیگم کے دل میں اپنا مقام اور بھی بلند کر لیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکسکیوزمی احمر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ ۔ ۔ یونیورسٹی میں وہ گھاس پہ بیٹھا اپنے دوستوں کے ساتھ کسی ٹاپک پہ بحث کر رہا تھا جب ہانیہ نے آواز دی ۔
تم لوگ بات جاری رکھو میں بس ابھی آیا ۔ ۔ وہ اپنے دوست وقار کی پیٹھ تھپتھپاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ ۔
ہاں بولو کیا بات ہے ۔ ۔ احمر نے اکھڑے ہوئے انداز میں پوچھا ۔
احمر کب تک ناراض رہو گے مجھ سے ؟؟؟ بڑے پاپا اور مما جانی نے جو فیصلہ کیا اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ۔ ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہانیہ کی آواز بھیگ گئ ۔ وہ گھر میں احمر سے اس موضوع پر بات نہیں کر سکتی تھی ۔ سو کلاس ختم ہوتے ہی احمر کے پاس آگئ ۔
بولو جلدی اور صرف کام کی بات کرو ہانیہ ۔
اس کا اجنبی لہجہ ہانیہ کو بہت تکلیف دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ احمر مما جانی نے رات پھر مجھ سے پوچھا تھا ۔
تو تم نے کیا جواب دیا ؟؟
وہی جو آپ نے کہا تھا ۔ ۔ دیٹس لائک آ گڈ گرل ۔ ۔ دیکھو ہانیہ ایک کزن اور دوست کی حیثیت سے تم مجھے بہت پیاری ہو مگر جو رشتہ ہمارے گھر والے جوڑنا چاہتے ہیں نا میں اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ۔ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ پچھلے چار سال میری فاریہ کے ساتھ کمٹمنٹ ہے ۔ ۔
آپ خود انکار کیوں نہیں کر دیتے احمر ؟ میرے کندھے پہ بندوق رکھ کے کیوں چلا رہے ہیں ۔ بڑے پاپا کو اپنے اور فاریہ کے مطلق سب کچھ بتا دیجئے ۔
ہانیہ نے بہت غصے سے احمر کی طرف دیکھا ۔
میں جائیداد سے عاق نہیں ہونا چاہتا سمجھیں تم ۔ ۔ احمر پلیز ایسے مت کریں آپ ۔ میں بڑے پاپا کو دکھ نہیں دے سکتی ۔ ہانیہ نے بے بسی سے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ میں اب انکار نہیں کروں گی سمجھے آپ ۔ ہانیہ کا انداز دو ٹوک تھا ۔
اگر تم نے ہاں کی تو میں خودکشی کر بیٹھوں گا ۔ ۔ اور رہی فاریہ کی بات تو جب تم انکار کرو گی تب میں خود بابا جان سے بات کر لوں گا ۔
احمر کے الفاظ نے ہانیہ کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا تھا ۔ ۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے زندہ درگور کر دیا ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بلکل ٹوٹ چکی تھی بڑے پاپا کے علاوہ اگر اس نے کسی مرد سے بے تحاشا محبت کی تھی تو وہ احمر ہمدانی تھا ۔ ۔ ہر وقت کی نوک جھونک اور لڑائی جھگڑے کے دوران اسے کب اس سے محبت ہو گئ پتہ ہی نہ چلا ۔ وہ ہر جگہ ساتھ ہوتے ۔ سکول ، کالج اور اب یونیورسٹی ۔ ۔ وہ دونوں جب ساتھ ہوتے تو ہر نگاہ میں ان کیلئے ستائش ہوتی ۔ ۔ مگر پھر اچانک ہی احمر کی زندگی میں فاریہ آگئ ۔ ہانیہ نےکبھی اس بات کو سر پہ سوار نہیں کیا تھا ۔ اسکا خیال تھا کہ احمر جلد ہی فاریہ کو فراموش کر دے گا مگر آج احمر کی بات سن کر وہ حقیقتاً شاکڈ رہ گئ تھی ۔ ۔
مماجانی کے بار بار بلانے پر بھی وہ کھانے کی میز پر نہ گئ تو ناچار بڑے پاپا کو ہی اسے لینے کیلئے آنا پڑا ۔۔ بڑے پاپاکو غیر متوقع طور پر اپنے سامنے دیکھ کر وہ ہڑ بڑا کر اٹھی ۔ ۔ بڑے پاپا آئیے بیٹھیے اس نے بیڈ کی چادر درست کرتے ہوئے کہا ۔ ۔
کیا ہوا ہماری گڑیا کو ؟ احمر سے جھگڑا ہو گیا کیا ۔ بتاو میں ابھی اس کے کان کھینچتا ہوں ۔
بڑے پاپا کے ہلکے پھلکے انداز پر اس نے مسکرانے کی سعی کی مگر ناکام رہی ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بڑے پاپا ایسا کچھ نہیں ہے ۔ بس میرے سر میں تھوڑا درد ہے ۔ ۔ کیا بات ہے بیٹا کیا طبعیت زیادہ خراب ہوگئ ہے اسی وقت ساعقہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں ۔ نہیں بڑی ماں میں ٹھیک ہوں ۔ کہاں ٹھیک ہو جب سے کالج سے آئی ہو اسی طرح پڑی ہوئی ہو ۔ خضر میں تو کہتی ہوں اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں دیکھیں تو کتنی کمزور ہو گئ ہے ۔ اپنا خیال بھی نہیں رکھتی ۔ ۔ بڑی ماں کے لہجے میں چھپی گہری فکر نے ہانیہ کو اندر تک شرمندہ کر دیا تھا۔ بڑی ماں پلیز میں نے کہا نا میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ چلیں آجائیں بڑے پاپا ہم کھانا کھاتے ہیں مجھے بڑی بھوک لگی ہے ۔ ہانیہ نے انکا دھیان بٹانے کی غرض سے خود کو ہشاش بشاش ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ مگر خضر ہمدانی اس وقت گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت اور وفا کا پیکر ہاہاہا ۔ ۔ ۔ تم بھی نا دانیال ہمیشہ کتابی باتیں ہی کرتے ہو ۔ ۔ ۔ احمر کو دانیال کی بات کسی جوک کی طرح لگی تھی ۔ ۔ ۔ احمر لوگوں کا گروپ ہر روز کسی نئے موضوع پہ بحث کیا کرتا ۔ پہلے پہل تو ہانیہ بھی اس گروپ کا حصہ ہوا کرتی تھی مگر بعد میں وہ یہ گروپ چھوڑ گئ تھی کیونکہ بے تحاشا بحث کے بعد اسکا اور احمر کا جھگڑا ہو جاتا تھا ۔
ہانیہ کی آنکھوں میں لڑتاجھگڑتا اور کھلکھلاتا ماضی کسی فلم کی طرح چلنے لگا ۔ سامنے احمر اپنے دوستوں کے ساتھ دھواں دھار بحث میں مصروف تھا مگر ہانیہ بلکل غائب دماغی کے ساتھ آتے جاتے سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی۔ ۔ ۔ ہوش تو تب آیا جب اس کی دوست عروہ نے آکر اسکا کندھا ہلایا ۔۔۔ میڈم گھر نہیں جانا کیا ؟ عروہ کے آواز دینے پر وہ بری طرح سے چونکی تھی ۔ ۔ احمر لوگوں کا گروپ بھی اپنی جگہ پر موجود نہ تھا ۔ ۔۔ ۔ احمر کہاں گیا اس کے ساتھ ہی جاوں گی ۔ ہانیہ نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔ احمر فاریہ کے ساتھ ذرا باہر گیا ہے تمہیں آج ڈراپ کرنے کی ذمہ داری میری ۔ عروہ نے شوخی سے کہا تو وہ چپ چاپ اسکے ساتھ چل دی ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ پھر کیا جواب دوں بھائی صاحب کو ۔ مماجانی نے کمرے میں آتے ہی سوال کیا تھا ۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور مماجانی کی طرف متوجہ ہوگئ ۔ ۔ کس بارے میں مما ؟؟ اس نے انجان بننے کی کوشش کی ۔ ۔ تم اچھی طرح سے جانتی ہو ۔ ۔ فاطمہ بیگم نےبڑے تحمل سے جواب دیا ۔ میں احمر کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ۔ ۔ ہانیہ نے قطعی لہجے میں کہا ۔
ہانیہ مجھے پتہ ہے تم میری تربیت پہ حرف نہیں آنے دو گی ۔
مما پلیز کیا ہم اس بات کو یہیں ختم نہیں کر سکتے ۔ ۔ نہیں ہانیہ تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا آر یا پار ۔ ( عورت اور وفا کاپیکر ۔ ۔ ۔ کہیں بہت دور سے آواز آئ تھی اور ہانیہ نے اگلے ہی پل فیصلہ سنا دیا تھا
۔ ۔ میں احمر سے کبھی شادی نہیں کروں گی مما نہ آج نہ کل ۔ ۔
میں تمہارے بڑے پاپا کو کیا جواب دوں گی جانتی ہو نا کتنے نازوں سے پالا ہے انہوں نے تمہیں ۔
تو کیا ہوا مما اگر انہوں نے میرے ناز نخرے اٹھائے ہیں کیا اب میں ان کی ؐخاطر اپنی زندگی داو پہ لگا دوں آپکو باقی سب کا خیال ہے مگر اپنی بیٹی کی کوئی پرواہ نہیں ۔ ۔ ہانیہ نے سفاک ہونے کی بھرپور ایکٹنگ کی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو رہی تھی اور دروازے سے واپس پلٹتے بڑے ابا کے جھکے کندھے دیکھ کر ہانیہ کا دل پھٹ گیا تھا ۔ ۔
ہانیہ کون ہے وہ ؟
کون مما ؟؟
جس کی وجہ سے تم اتنی خود غرض بن رہی ہو ۔ ۔
وہ میرا کلاس فیلو ہے مما یقین مانیے بہت اچھا ہے ۔ ( ہانیہ نے بڑی بہادری سے جھوٹ بولا تھا )
تم نے آج میرا مان توڑ دیا ہانیہ ۔ تم میرا غرور تھیں فخر تھیں مگر آج تم نے مجھے میری ہی نظروں میں ذلیل کر دیا ہے ۔ فاطمہ بیگم بڑے دکھ سے کہتے ہوئے آنسو ضبط کرتیں کمرے سے نکل گئیں تھیں ۔ مما پلیز ۔۔۔۔ ہانیہ نے انکو آواز دینا چاہی مگر الفاظ کہیں اندر ہی دم توڑ گئے تھے ۔ ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی ۔ دیکھ لو احمر ہمدانی میں نے آج اپنا آپ ہار دیا ہے ۔ ۔ ۔ صرف تمہاری خوشی کی خاطر میں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا ہے ۔ ۔ اب تو نہیں کہو گے نا کہ عورت وفا کا پیکر نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ اب تو خود کو سزا نہیں دو گے نا احمر ۔ ۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی مگر دل کا درد تھا کسی طرح بھی کم نہیں ہورہا تھا ۔ ۔
وفا ہم نے نبھائی ہے
سہی ہم نے جدائی ہے
ہر لمحہ ٹھوکر کھائی ہے
ہر موڑ پہ ملی رسوائ ہے
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1745380669061966/
“