شام۔ تھوڑا سا دن ڈوبتا سا۔ سُورف راستہ کے دونوں طرف کھنڈرات۔ اینٹ۔ پتھر۔ چُونا۔ مٹی کے ڈھیر خودرّ و سبزہ سے ڈھکے ہوئے جنپر کمزور سورج کی شعاعیں پڑ کر اُچٹ رہی ہیں۔ کہیں دیوار کا کچھ حصّہ جو باقی رہ گیا ہو اُسکی کنگنی پر شاما بول رہی ہے، وَیڑ کِسی املی کے درخت کی پُھننگ پر بیٹھا ہوا چہچہا رہا ہے۔ مغرب کی طرف پھٹے پھٹے بادلوں کا سلسلہ جو ساوی الحجم ہوا میں رُکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں انتے بطی السیر ہیں کہ نظر اُن کی حرکت معلوم نہیں کر سکتی۔ آفتاب کی کِرنوں نے اُن کو نارنجی رنگ دیا ہے۔ اُن بادلوں کے نیچے ابابیلیں جُھرمٹ کھا کر سُریلے راگ گا رہی ہیں اور ہوا مُنہ پر لئے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں اور کچھ ابابیلیں جو چکّر لگاتے وقت ٹکُڑی سے پیچھے رہ جاتی ہیں تو پھر ہوا پر تن کر جھومر میں آ ملتی ہیں۔
آثار صنادید۔ کہیں دروازے کی محراب جو کسی جگہ سے کُھل گئی ہے اور فلک کی سرد مہری نے سیاہ کر دیا ہے اوپر دو تین کنگرے باقی ہیں جن پر چیل کوّوں کی بِیٹ کے سفید سفید نشان کہیں دالان کی بنگریڈار ڈات کا کچھ حصہ۔ کہیں شہہ نشین کی کُرسی۔ کہیں چبوترے کا نشان۔ کسی جگہ دو تین سیڑھیاں۔ کہیں لداؤ کی چھت کا کونہ۔ کہیں حوض کا کنارہ۔ کہیں طاق کا اجارہ۔ کہیں دیوار میں انگوٹھے کی علامت۔ کہیں کانس کا ٹکڑا۔ کِسی جگہ مِٹے مِٹے نقش و نگار نہ کہیں پُھول گوکھ دریچہ۔ کسی دیوار میں قُلبہ دبے ہوئے۔ غرض دہ کُہنہ عمارتیں اپنی ٹوٹی پھوٹی زبانِ حال سے اگلے زمانے کی صنعت اور کاریگری گویا زبان حال سے اظہار کر رہی ہیں۔ از نقش و نگار در و دیوار شکستہ: آثار پدیدست صنادید عجم را۔
تکیہ۔ المختصر میں اور شہر کے تماشائی جو میلہ کر کے آ رہے تھے۔ دلّی دروازے سے ایک میل کے فاصلے پر سائیں ٹگہ شاہ کا تکیہ ہے۔ ٹگہ شاہ۔ کوڑا شاہ کے مرید اور دمڑو شاہ آپ کے دادا پیر ہیں اور ٹگہ شاہ کے دو مرید ہیں۔ لیّا شاہ اور جھنجی شاہ گویا بے دام کے غلام ہیں۔ میں تکیہ کے قریب آیا تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے پر دو تین درخت بڑ اور پیپل کے بلند سڑک کے دونوں طرف سایہ دار اور لبِ سڑک مسجد کا ایک چبوترہ جس کے قریب شاہ صاحب کا کچّا ڈھابہ جس کی دیواروں کی متی بارش سے دُھل گئی ہے اور مونڈیروں پر کنکر اور ٹھیکریاں نکل آئی ہیں اُس ڈھابہ کی پشت کی طرف دس بارہ گز لمبا لکڑی کا پرنالہ جس کو بان سے باندھ کر مونڈیر سے اٹکا رکھا ہے۔ پرنالہ کے دونوں طرف جو اوچھل اوچھل کر برساتی پانی بہا ہو اُس نے مٹی کہلا کر مونڈیر سے زمین تک ایک لمبا گھٹا کھول دیا ہے۔ اندر کوٹھری کے تھپواں اُپلے کچھ جنگل کے چُنے ہوئے ارنے۔ کیکر کے خار دار جھانکڑ گلی ہوئی مکئی، جوار کی جڑیں، کچھ بوسیدہ چھپّڑ کا پُھونس گیلا پڑا ہے اور اُس ڈھیر کے قریب ایک بکری اور دو اُس کے بچے بندھے ہوئے مُوت اور مینگینوں سے چونکہ برسات ہے ایک سڑا ہوا بھپکا نکل رہا ہے۔ دَھابہ کی مونڈیروں پر پُرانے پٹیلہ کے بورئیے کے ٹکڑے پڑے ہیں اور اُن کی حفاظت کے واسطے پرانے پان کے توڑوں میں کہیں مٹکے کا ٹوٹا ہوا گلا بندھا ہے۔ کسی طرف اینٹ باندھ کر لٹکا دی ہے، کوٹھری کے دروازے کے قریب ایک مٹکا جسکا نونی لگ کر گلا جھڑ گیا ہے۔ چاروں طرف کائی کے ٹکڑے جو خشک ہو کر چٹخ گئے ہیں مٹکے کے چاروں طرف لپتے ہوئے، پانی مٹکے کے پیندے میں گل آلود رہ گیا ہے اور ہزاروں کیڑے اُس میں کُل بلا رہے ہیں۔ چینی کی جگہ ٹھلیا کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا ڈھکا ہے۔ اور اُوپر اُس کے ایک دودھ کا کُلھڑا کنارہ ٹوٹا ہوا پانی پینے کو ٹھیکرے میں اوندھا ہوا، چوکھٹ میں اندر کی طرف ایک گُڈری بچھی ہوئی اُس پر سائیں ٹگہ شاہ بیٹھے ہوئے پچاس پچپن برس کا سِن نیچی کڑ بڑی ڈاڑھی نشہ میں جورال پینک کے وقت ہی ہے اُس سے ڈاڑھی کے بال چپک کر بتیاں سی بندھ گئی ہیں‘ سر پر ایک گاڑھے کا میلا پُرانا چیحڑا لپٹا ہوا۔ کان کی لوؤں میں پیتل کی دو بالیاں، گلے میں گزی کی دوھری کمری جس کا ابرہ پھٹ گیا ہے اور فقط استر باقی رہ گیا ہو، ایک آستین کُہنی پر سے نکلی ہوئی دوسری شانے پر سے ندارو۔ کمر لوئی میں کوڑی کے قریب ایک جیب جس میں تنباکو کی چمڑے کی تھیلی جس کے منہ پر ڈورا بندہا ہوا اور ڈورے کے سِرے پر ایک ٹوٹی ہوئی جھنجی کوڑی بندی ہوئی، برسات کی پن بھری ہوا سے جو تنباکو کا گُڑ پگھلا ہے تو بالشت بھر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کمری یہاں سے ہے کِس کپڑے کی۔ ٹانگوں پر نیلا لنگ جس پر پسینا آ کر خشک ہوا ہے تو جس طرح کسی قچعہ پر مُوش دنداں بناتے ہیں پسینہ کی شوریت سے ایک سفید جالی سا بن گیا ہے۔ پاؤں میں ایک لعل منکا جس کو رتوا کہتے ہیں ٹخنے کے قریب ڈورے سے بندھا ہوا آگے ٹوٹے ہوئے مٹکے کا ایک کڑیل دھوئیں سے کالا۔ راکھ بھری ہوئی اور کڑیل کے گرد چلمیں جو اُلٹی گئی ہیں تو گُل تنباکو کے جلے ہوئے چار طرف پڑے ہیں۔ راکھ میں ایک تھپواں اُپلہ دبا ہوئے کنارے پر اُپلے کے تھوڑی سی آگ اور اُس پر کچھ کُرسیاں رکھی شاہ صاحب لنگی کا آنچل دونوں ہاتھوں میں پکرے جھل رہے ہیں۔ کبھی منہ سے پھونکتے ہیں چہرہ کا رنگ لال ہو گیا ہے۔ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے۔ کڑیل کے قریب ایک متی کا مداریہ حقہ جس پر نرسل کا نیچہ۔ نیچے جو میلی دھجیاں لپٹی ہیں وہ سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں اور پھٹا ہوا نیچہ نکل آیا ہے۔ گٹّا سڑ کر چپک پیدا کر لایا ہے اور حقہ پینے والوں نے جو گتّا دبا دبا کر پیا ہے گٹّے کے دونوں طرف گڑھے پڑ گئے ہی آپ نے کا سرا جسکو نہرو کہتے ہیں جلا ہُوا اُس پر ڈنڈی اور کنارہ ٹوٹی چلم رکھی ہے۔ اور شاہ صاحب کا سامانِ فقیری، سہنکا مٹکا۔ سیلی۔ تاگہ۔ کنٹھا۔ جھولی۔ لوٹا۔ تانبا میا۔ مُندرہ۔ حلقہ۔ تسبیح۔ الفا۔ کفئا۔ سونٹا۔ کونڈی۔ کستی۔ کملی۔ تسلا۔ چلی مالا۔ بُندا۔ تسمہ۔ چہڑی۔ کھڑاؤں۔ لُنگ۔ جُبّہ۔ چادر۔ خرقہ۔ صافہ۔ ہاتھوں میں تانبے پیتل لوہے کے کڑے پڑے، گدڑی پر بیٹھے بھنگ کے نشہ سے ہونٹ خشک آنکھیں جہکی ہوئی لال لال۔ بار بار ہونٹ خشک ہونے کی وجہ سے زبان ہونٹوں پر پھیر لیتے ہیں۔ میرے اُوپر جو شاہ صاحب کی نظر پڑی تو با آواز بلند کہا میر صاحب حُقّہ پیتے جاؤ۔ میں نے صاحب سلامت کی اور شاہ صاحب نے ایک گھمّا اینٹ کی طرف اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گیا۔ شاہ صاحب نے اپنے چیلے کو آواز دی بیٹا لیّہ شاہ چلم بھرو۔ لیکن آگ جھاڑ کر اور دھو کر رکھنا۔ جہنجی حقہ تازہ کرو اور وہ جھاؤ کا تنکا پڑا ہے آب نے میں پھیر لو۔ بیٹا یہ میر صاحب داستان گو ہیں بڑے اَٹ کی سٹ لڑاتے ہیں۔ یہ امیروں کے کھلونے ہیں ان کے تو دیدار ہی مشکل سے ہوتے ہیں۔ میاں میر صاحب آپ تو ہفتہ اور منگل کو اپنے مکان پر داستان کہتے ہیں ٹکٹ لگا ک۔ میں ان دونوں کو داستان میں بھیجوں گا آپ داستان میں مرشد کا ادب، صبر و قناعت کی خوبیاں، بادبُود کے فائدے، نقش کشی کے طریقے ان کو سنا دینا آپ تو ہر قسم کے مفید عام مضمون بیان کرتے ہیں۔ میں تو ان دونوں کو سمجھاتے سمجھاتے تنگ آ گیا۔ یہ ایسے خچّر ہیں جو سمجھتے ہی نہیں۔
https://www.facebook.com/zest70pk/posts/10207006811184159
“