بالکونی میں خالی بوتلیں۔ خالی ڈبے ۔ میزکرسیاُں سائیکل ، چند گتے کے ڈبے ایشڑے کچھ بھی نظر نہیں اتا سب کو سفیدی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے
میں ربر کے جوتے جیکٹ پہنتا ہوں سر کو ٹوپی اور کا نوں کو مفلر سے لپیٹے بالکونی میں جا کر سگریٹ سلگتا ہوں اور جلدی جلدی سے کش لیتا ہوں جیسے کسی شادی شدہ مرد کو گھر جانے کی جلدی ہو اور اسے راستے میں محبوبہ سے بھی ملنا ہو
اس سال کی پہلی برف نے میری بالکونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
ہے اور مجھے وہ برف یاد آگی جب میں اور سوزانہ ننگے پاؤں برف میں بھاگا کرتے تھے اور ایک دوسرے لے گریبانوں میں برف کے گولے پھینکتے تھے —
سوزانہ کا تعلق سپین سے تھا اور ہم سویڈش زبان سیکھنے کے لیے ایک ہی سکول میں جاتے تھے اور ایک ساتھ ایک ڈرامہ کلب میں کام کرتے تھے میں اس کے ساتھ ٹینگو ڈانس کرتا تھا اور اس کی بانہوں میں جھوم جاتا تھا اور کئی ماہ جھومتا رہا
سوزانہ اور میں ننگے پاؤں برف پہ بھاگتے اور برف کے گولے پھنکتے رہتے
پھر شاید میری دوستی کا وزن زیادہ ہو گیا تھا کہ ایک رات ٹینگو ڈانس کرتے میں میں سوزانہ کی بانہوں میں جھوم رہا تھا کہ سوزانہ نے بانہوں کا کھلا چھوڑ دیا اور ہماری دوستی دھڑم سے ڈانس فلور پہ گر گئی
میں کئ ماہ اُٹھ نہ سکا آخر ایک دن میری ٹیچر اینکر لندول اور ایشبتھ گھر آئی اور مجھے کان سے پکڑ کر شاور روم دیکھیلا اور اس رات ہم تینوں نے ایک پب میں گزاری
اج کی برف دیکھ کے مجھے ایک اور برف کے گولے اپنے گریبان میں محسوس ہوئے
—————
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10154707736938390&id=656893389
“