امریکن نانی اماں بس اب بہت ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظار حسین کی نانی اماں نے ایک رات کہانی سناتے کہا ،، وہاں تھیں تین کڑاھیاں دو سوکھی ساکھی ایک میں پانی ہی نہیں ، جس میں پانی ہی نہیں تھا اس میں اترے تین کمہار دو لنگڑے لولے ایک کے ہاتھ ہی نہیں، جس کےہاتھ ہی نہیں اس نے بنائیں تین دیچکیاں دو ٹوٹی پھوٹی ایک کا پیندا ہی نہیں۔ جس کا پیندا نہیں تھا اس میں بوڑھیا نے پکائے تین چاول دوکچے پکے ایک گلا ہی نہیں،، جو گلا نہیں تھا اس پر اترے تین مہمان دو روٹھے رواٹھے ایک منا ہی نہیں جو منا ہی نہیں تھا اس کے لگائے تین جوتے دو خطا ہوئے ایک لگا ہی نہیں جو لگا ہی نہیں اس سے پیٹ کر بھاگا وہ مہمان۔
اس پہ انتظار حسین نے شور مچایا کہ ،، نانی اماں یہ تو کوئی کہانی نہیں ہے،،
ابت ہٹ کیسے نہیں ہے ،، کہانی کے کوئی سینگ ہوتے ہیں،، نانی اماں نے کہا
انتظار حسین کے ایک کزن نے جو سننے کے لیے بے تاب تھا کہا ،، اچھا پھر کیا ہوا ، انتظار حسین کی نانی اماں نے کہا ،، شاباش جب سننے والا کہے کہ ،، اچھا پھر کیا ہوا،، تو کہانی آگے چلتی رہتی ہے ۔
ہماری بھی ایک نانی اماں ہے اس کا اصلی نام ہم تو کیا ہمارے بڑے بھی نہیں جانتے مگر ہم سب اس کو،، امریکن ، امریکن،، کہتے ہیں ایک دن امریکن نانی اماں نے ہمیں کہانی سناتے کہا ،،
یک تھا ملک افخانستان وہاں کے لوگ اجڈ جاہل اور جنگجو تھے۔۔ ان کے پڑوس میں ایک سفید بادشاہ رہتا تھا ،، اس سفید بادشاہ نے افغانستان کے لوگوں کو کہا اگر تم میرے دوست بن جاو تو میں تمہاری ہر طرح سے مدد کر سکتا ہوں ،، بس بچو اس سفید بادشاہ نے ان اُجڈ لوگو کی مدد کیا کی کہ یہ اُجڈ جاہل لوگ تو کہنے لگ گے کہ ،، بس اب ہم سب برابر ہین ۔۔۔ لڑکیاں بھی اب سکول جائیں گی ،،، زمین کسانوں کی ہے ،، مگر وہاں کے مولا نے کہا تیری ایسی کی تیسی یہ نہیں ہو سکتا کہ بچیاں سکول جائیں ،، سارے مولاں دوڑے دوڑے ہمارے بادشاہ کے پاس آئے اور لگے فریاد کرنے
بس ہمارے بادشاہ نے سفید ریچھ کو سبق سکھانے کے لیے چڑھائی کر دی اوروہ سبق سکھایا کہ کچھ نا پوچھو ،، میرے ایک کزن نے کہا ،، اچھا پھر کیا ہوا ،، امریکن نانی اماں ایک دم چھونکی،، ارے بیٹا آرام سے پوچھتے ہیں میں تو ڈر ہی گئی ہوں ،،،،
لو میں تو بھول ہی گئی ، اچھا میں تم کو ایک اور ملک کہ کہانی سناتی ہوں ،، امریکن نانی اماں نے کہا ،، ایک تھا ملک عراق اس کا بادشاہ ہمارے بادشاہ کا پکا دوست تھا بس دئیے میں تیل ڈالنے پہ ان میں ان بن ہوگئی ہمارے بادشاہ کو ایسا تاؤ آیا کہ کچھ نہ پوچھو کہ میری بلی اور مجھے ہی ماؤں ۔ بس لگا دی اس کے تیل کے کنواں کو آگ۔ ۔۔۔ عراق کا بادشاہ بھاگ کر چوہے کے بل میں جا گھسا مگر ہمارے بادشاہ نے اس کو وہاں سے بھی باہر نکال کے اس کا حشر نشر کر دیا ،، مین نے کہا امریکن نانی وہ جو ملک افغانستا ن تھا وہ کیا ہوا ،،
ارے بیٹا ایک تو تو بھولتا نہیں اس کا کیا ہونا تھا ہمارے بادشاہ نے افغانستان میں مسجد سے اٹھا کر ایک کو بادزاہ نیا کر افغانستان پہ ابیٹھا دیا تھا اور اس نے ملاں بادشاہ نے دنیا بھر کے جنگجو اکٹھے کر لیے ، کچھ جنگجو مسلمانوں کے مقدس ملک میں سے بھی آئے تھے ،،مقدس ملک کا نام لیتے امریکن نانی اماں نے انگلیوں کو چھوم کو آنکھوں پہ لگایا ،، امریکن نانی اماں نے کہانی جاری رکھتے کہا ،،ہمارے ملک میں ایک دن لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ ہر طرف دھواں ہی دھواں اٹھ رہا ہے بس ہمارے بادشاہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،، میرے کزن نے کہا ،، اچھا پھر کیا ہوا ،
بیٹا یہ تو شیطان کی آنت کی طرح لمبی کیانی ہے ، مینں تم کو دو اور ملکوں کی کہانی سناتی ہوں ایک تھا مصر اور ایک تھا لبیا ،، میرے ایک پریشان کزن نے کہا امریکن نانی اماں ،، یہ کیسے ہو سکتا ہے تمھارا بادشاہ عراق میں بھی ہو ، افغانستان میں بھی ہو ۔ مصر میں بھی ہو اور لبیا میں بھی ہو ، ،،
امریکن نانی اماں نے کہا ،، ابے تو جاہل ہے رہا بدھو کا بدھو ہمارا بادشاہ ہر جگہ خود تھوڑا ہی جاتا ہے ہر ملک میں اس کے تنخوا دار حواری ہوتے ہیں جب ان ہی سے کام بن جائے تو وہ کیوں ہر جگہ خود جائے ،،
امریکن نانی اماں ہمیں بتاو پھر افغانستان میں کیا ہوا ،، اے بچو افغانستان کا کیا ہونا تھا ہمارا بادشاہ بہت رحم دل ہے اس نے فیصلہ کیا کہ انسانوں کا اب اور خون بہا نا ٹھیک نہیں ۔ میں تم کو ایک اور ملک شام کی کہانی سناتی ہوں ،،،
مین نے اپنے ایک کزن کے کان میں کہا ،،
جب تک ہم امریکن نانی اماں سے ،، اچھا پھر کیا ہوا ،، اچھا پھر کیا ہوا کہتے رہیں گئے امریکن نانی اماں اپنے باد شاہ کی جنگی فتحوہات کی کہانیاں سناتی رہے گئی ،،
آج ہم امریکن نانی اماں سے ،، اچھا پھر کیا ہوا ،، کیہنے کی بجائے
امریکن نانی اماں سے کہتے ہیں ،
امریکن نانی اماں بس اب بہت ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“