کبھی تو صبح ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے میری ایک دوست نے ہوچھا ، مسعود تمہاری شادی کب ہوئی ؟ میں نے کہا 1973 کو ، تو اس نے کہا
ارے یہ تو وہی سال ہے جب ملک کا آئین بنا تھا ،،
میں نے کہا
تم میری شادی کو ،، آئینی شادی ،، کہہ سکتی ہو ، جس طرح 1973 کا آئین ختم نہیں ہو پایا ، اسی طرح میری شادی بھی ختم نہیں ہو پائی گو میں کبھی صائمہ ، کبھی نازو ، اور کبھی بشری کے ساتھ ملکر اس میں ترمیم کرتا رہتا ہوں، اور محترمہ بھی بچوں کی فوج کے ساتھ ملکر طاقتور ہو کر میرے تمام بنیادی حقوق معطل کر کے بی 52 کے آختیار سھنبالتی رہتی ہے،
اس عرصے میں میں عملی طور پہ قید ہی میں رہا ،،میری شاعری سنسر کی جاتی رہی ، احتجاج کرنے پہ ہر سال بچوں کی صورت میں کوڑے بھی لگائے جاتے رہے ،
رات گئے جب میں گھر کی دیوار پھلانگ کر گھر کی جیل سے بھاگنے کی کوشش کرتا تو گھر کی جیل والی دیوار پہ شیشے لگا دیے جاتے
، محترمہ اس عرصے میں اپنے اختیار استمعال کرتے ہوئے سخت سے سخت ترمیمیں کرتی رہتی ،
مثلا میں کام سے خود تنخواہ نہیں لے سکتا ، وہ جا کر خود وصول کریں گی ، مجھے اپنے اخرجات اصافی کام کے کے پورے کرنے ہوں گے ، شاعری حتاکہ اخباری مضموں میں بھی کسی عورت کا ذکر تک نہیں ہوگا ۔۔
اور میں اس آمرنہ نظام کے خلاف جدوجید کرتا رہتا ، گھر کے جاسوسی عملے سے بچ بچا کر کبھی کلثوم ، ناہید ، گوڈو ، اور کبھی مسرت کے ساتھ خفیہ میٹینگیں کرتا رہتا اوراس آمرانہ نظام کو ختم کرنے کا پروگرام بنتا رہا ۔
میری اس جد و جہد کی ساتھی بھی عجیب رول ادا کر رہیں
جو سب سے زیادہ میرے دل کے ساتھ دل ملا کر چلنے کا عہد کرتیں ، وہی اپنے خاوند ، بھائی اور ماں باپ کی پہلی جھڑکی کے ساتھ ہی میرا ساتھ چھوڑ کر یہ جا وہ جا ، تو کون میں اور میں کون والا رول ادا کر رہی ہوتیں ۔۔
بعض تو ، میرا دل لے کے جیسے میں نے بڑی احتیاظ سے دوسروں سے خفیہ طور ہی اسے دیا ہوتا وہ اسے لے کے میری محترمہ کے پاس میرے خلاف رپورٹ کرنے چلی جاتیں ، اور وعدہ معاف گواہ بن جاتیں۔۔
مگر بعض نے اس جد و جہد میں میرا بہت بہادری سے ساتھ دیا جب ان کو مجھ سے خفیہ ملاقات کرتے ان کے گھر والے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے اور ان پہ وحشیانہ تشدد کرتے مگر وہ میرے خلاف کوئی گوائی دینے سے انکار کر دیتیں اور جب ان کے گھر والے ان کو بے بس کر کے ان کی شادیاں کر دیتے تو یہ جدوجید کی ساتھی پھر بھی مجھ سے ملتی رہتیں اور بعض تو دادی نانی ہوتے ہوئےبھی میری اس جدوجید کو جوان رکھے ہوئے ہیں
اب یہ تو فیصلہ ہو گیا ہے 1973کۓ آئین کی طرح یہ شادی کبھی ختم نہیں ہو پائے گی ، مگر گھر کے تمام ایم محکوموں کی فائیلیں مجھ سے لے لین گی ہیں ۔۔
میرا پڑھنے کا کمرہ ہی میرے سونے کا کمرہ بنا دیا گیا ہے۔۔
مشروب پینے کے گلاس پہلے ہی میرے الگ تھے اب وہ میرے کمرے میں رکھ دئیے گئے ہیں مگر ،، نمائشی دولہا ،، کی طرح میرا اعزازی عہدہ برقرار رکھا ہوا ۔ کوئی گھر میں پارٹی ہو کوئی تقریب ہو یا کسی بیرونی دورہ یعنی کسی دوستوں کے گھر جانا ہو کسی شادی کی تقریب میں جانا ہو یا کسی کے چہلم میں جانا ہو تو مجھے بنا سنوار کر گھر کے سربراہ کے طور پہ پیش کر دیا جا تا ہے مگر میں گھر کے بے ضرر سے فیصلوں کے علاہ کسی بھیاہم کام میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر پاتا ۔۔
میرا نام بھی مسعود قمر ہے میں اس بڑھاپے میں بھی کبھی خورشیدہ ، کبھی بانو اور کبھی خالدہ کے ساتھ مل کر اس شادی کے آمرانہ نظام کے خلاف جدو جہد کرتا رہتا ہوں
،، کبھی تو صبح ہو گی ،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“