مجھے یہ کالم اردو میں نہیں پنجابی میں لکھنا چاہیے تھا ، مگر سُخن گسترانہ بات یہ ہے کہ تمام پنجابی اپنی مادری زبان پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیّت سے لیس اور آراستہ نہیں ہیں ۔ ہیں نا عجیب بات کہ پانچ دریاؤں کی تمام مچھلیوں کو پانی کے ہجے نہیں آتے ۔ لسانی جمہوریت کا بنیادی فارمولا یہ ہے کہ مادری زبان سے ہر بچّے کی شناسائی اُس کے اپنی ماں کے بیٹے ہونے کی گواہی ہے ۔ روایت ہے کہ قیامت کے روز بچوں کو اُن کی ماؤں کے ناموں سے پُکارا جائے گا۔ اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ حضرت موسیٰ نے جب اپنے بھائی ہاروں کو پکارا تو " میری ماں کے بیٹے کہہ کر مُخاطب کیا "۔
سورہ ء روم میں اللہ نے واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ تمہاری جلد کا رنگ اور تمہاری زبان اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ وہ زبان جو ماں کے دودھ کے ساتھ بچّے کو ودیعت کی جاتی ہے اُس کی فطری زبان ہے ۔ اُس کی ماں کا دودھ ہے مگر بُرا ہو سیاسی نظریہ سازوں کا جنہوں نے پنجابی بچوں سے ماں کا دودھ چھین کر اُنہیں بوتل کا دودھ لگوایا ۔ اور پھر اُسے آئینِ فطرت کے خلاف ایک مصنوعی زبان کے پالنے میں پالنے کو روایت بنا لیا ۔ روایت نہیں بلکہ فیشن کے طور پر رائج کر دیا۔ اُسے ایک منصبِ افتخار بنا دیا کہ اپنی ماں کی " اللہ کاکا توں" کی لوریوں کو بھول جاؤ اور اُمراؤ جان ادا کی شاعری میں اپنا لسانی لب و لہجہ تلاش کرو ۔
ہم پنجابی ذاتی طور پر کسی زبان کے خلاف نہیں ۔ ہم نے اردو کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے ۔ ہم نے اردو ادب امیں تاریخ سازی کی ہے ۔ اقبال سے لے کر مجید امجد تک اور منیر نیازی سے لے کر زاہد ڈار تک اور منٹو ، راجندر سنگھ بیدی اور بلونت سنگھ سے لے کر عبداللہ حسین ، مستنصر حسین تارڑ اور محمد خالد اختر تک کئی چراغ ستونِ اردو پر جلائے ہیں، جن کی لو سے زبان و ادب کی دنیا میں اردو نامور ہے ۔ ہمارے ثنا اللہ ڈار یعنی میرا جی تو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے تھے اور شکوہ کرتے تھے کہ اُن کی ماں کو اُن کی مادری زبان نہیں آتی ۔ ہمارے حلقہ ء اربابِ ذوق لاہور کے سیکریٹری جنرل اعجاز حسین بٹالوی جو معرکے کے کہانی نویس تھے ، جب بولتے تو اُن کا لب و لہجہ شین قاف کے اعتبار سے اتنا درست ہوتا کہ لگتا نواب واجد علی شاہ کا دیوان کوئی حکم نامہ پڑھ رہا ہے ۔ اور میرے دوست ظہیر کاشمیری کا اندازِ اردو خطابت صرف اُنہی سے مخصوص تھا ۔
لیکن ہمارے پنجابی حکمران اور محکمہ ء تعلیم کے اربابِ اختیار اتنے غیر پنجابی ہیں کہ وہ پنجاب کے بچوں کو مادری زبان کے فطری حق سے محروم کر کے اُن کو اردو کی کلاشنکوف سے مارتے ہیں ۔ جی ، ہم سب کو یاد ہے کہ اردو لشکر کو کہتے ہیں اور جدید لشکر گاہ میں کلاشکنوف کا فیشن ہے ۔
لیکن ہمارے پڑوسی صوبے نے حال ہی میں سندھی زبان کو سکولوں میں پرائمری سطح پر رائج کیا ہے ۔ لیکن ہم پنجابیوں کو شرم نہیں آئی کہ ہم بھی اپنے سکولوں میں مادری زبان کو لازمی قرا دے کر اپنے بچوں کو وہی بنائیں جو اُنہیں فطرت نے بنایا ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پنجاب کے سکولوں میں ذریعہ ء تعلیم پنجابی ہو ، نہیں ذریعہ ء تعلیم اردو ہی رہے اور جو انگریزی میں تعلیم دینا چاتے ہیں وہ انگریزی لسانی ثقافت سے جُڑ کر رہیں ، جو عربی کو ذریعہ ء تعلیم بنانا چاہتے ہیں وہ بھی شوق سے اپنا رشتہ سعودی عرب کے تیل کے چشموں سے جوڑیں مگر فطرت سے اپنا ناتا نہ توڑیں ۔ پنجابی بچوں کو پنجابی ہی رہنے دیں ، اُن کو " مہاجر " نہ بنائیں کیونکہ ایم کیو ایم لندن اُن کو مہاجر ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دے گی ۔
ہمارا مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہم سسٹم کی بات کرتے ہیں ، مگر ہر گز نہیں جانتے کہ سسٹم کیا ہوتا ہے اور جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیں سسٹم کے نہ صرف ہجے آتے ہیں بلکہ اُن کو سسٹم کی اصطلاحی تعریف بھی آتی ہے ، وہ بھی سسٹم کے عملی اطلاق سے واقف نہیں ہیں ۔ اگر ہوتے تو ہم ایک قومی سسٹم کو کامیابی سے چلا رہے ہوتے ، ہمارے یہاں دھرنے اور احتجاج نہ ہوتے ، ہمارے یہاں جعلی ڈگریاں اور کرپشن نہ ہوتی ، ہمارے یہاں ہر شخص کو دو وقت کی عزت کی روٹی میسر آتی۔ مگر ہم اپنے نان سسٹم کو ، اپنے لا نظام کو نظام کہے چلے جا رہے ہیں اور ہماری قومی غیرت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
پچھلے دنوں کچھ غلیظ باطنوں نے پنجابی کو غیر معیاری اور گھٹیا زبان ہونے کا طعنہ دیا اور فرمایا کہ اس زبان کو مہذب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ گویا یہ بیان پنجابی ماؤں کی چنریوں پر داغ کے مترادف تھا مگر ہم ظالم اس الزام کو بھی کوکا کولا سمجھ کر پی گئے ۔ کوئی ان نا ہنجاروں سے پوچھے کی گالی کس زبان میں نہیں ہوتی ، فحش الفاظ کس معاشرے میں استعمال نہیں ہوتے ؟ جسم کے پوشیدہ حصوں اور اعضا کے ناموں سے کون سی زبان خالی ہے ، اور جنسی ملاپ کے رشتوں کو گالی کے طور پر کس زبان میں استعمال نہیں کیا جاتا ؟
سب جگہ ، ہر لسانی معاشرے اور ہر شہر میں گالی سکہ ء رائج الوقت ہوتی ہے ۔ تو اس اعتبار سے ساری زبانیں فحش قرار دی جا سکتی ہیں ۔ لیجیے ، ایک واقعہ سن لیجیے :
میں تحفظِ خاندان کے دفتر میں ایک غیر ملکی جوڑے کے باہمی اختلاف اور تنازعے کی ترجمانی پر مامور تھا۔ اچانک میاں کو بیوی کی کسی بات پر اتنا غصّہ آیا کہ اُس نے اُسے ماں کی گالی دے ڈالی ۔ اس پر ثالثی کونسل کے سربراہ نے مجھ سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے تو میں نے کہا کچھ نہیں وہ ایک نا مناسب لفظ تھا ۔ لیکن مجھے کہا گیا کہ تم ترجمانی پر مامور ہو ۔ تم لفظ بہ لفظ ترجمہ کرو۔ تو مجھے یہ دل چسپ مگر ناخوشگوار فرض ادا کرنا پڑا ۔ نارویجین میں ماں کی گالی اور بھی زیادہ فیش ایبل لگی ۔ اس پر میرزا رفیع سودا یاد آگئے :
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لُوٹ لیا
اُم اللسان پنجابی زندہ باد
http://www.karwan.no/column/37326/2016-10-15/mother-of-languages/
“