ثمینہ راجہ کی پانچویں برسی
ثمینہ راجہ 11 ستمبر 1964کو بہاولپور کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ بارہ تیرہ برس کی عمر سے شعر گوئی کا آغاز ہوا اور جلد ہی ان کا کلام پاک و ہند کے معتبر ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا۔ لیکن اپنے گھرانے کی روایات اور سماجی پابندیوں کے سبب ان کو شعری و ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع حاصل نہ ہو سکے لہذا ان کی شاعری ایک طویل عرصے تک صرف 'فنون، نقوش، اوراق ،نیا دوراورسیپ، جیسےادبی جرائد اور سنجیدہ حلقوں تک ہی محدود رہی ۔ ایک عمر کی جدوجہد اور ریاضت کے بعد بالآخر وہ اپنے فن کو لوگوں کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئیں ۔ ان کے خاندان میں مستورات کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا چنانچہ انہوں نے نہایت نامساعد اور نا موافق حالات میں پرائویٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے پاس کیا ۔
1995 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ہویدا کے نام سے شائع ہوا ۔ تب سے اب تک ان کے گیارہ مجموعے ، ہویدا- شہر سبا- اوروصال – خوابنائے – باغ شب – بازدید – ہفت آسمان – پری خانہ – عدن کے راستے پر – دل ِ لیلٰی اور عشق آباد شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری دو ضخیم کلیات کی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔
1992 میں انہوں نے مستقبلکے نام سے ایک ادبی جریدے کا اجراء کیا جو ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا ۔ 1998 میں ان کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے رسالے ماہنامہ کتاب کی مدیر مقرر کیا گیا اور 1998 ہی میں انہوں نے ادبی مجلہ آثار کی ادارت سنبھالی اور پوری اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان وشناخت قائم کی ۔ وہ کئی برس سے معروف ادبی جریدے آثار کی مدیر ہیں ۔
ثمینہ راجہ کا اردو شاعرات میں وہی مقام ہے جو ن م راشد کا اردو شاعروں میں ۔ راشد کو شاعروں کا شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری کے مضامین، اوران کا مخصوص مفرس اسلوب عوام کی ذہنی سطح سے کافی بلند ہونے کے سبب عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا جو عام فہم اسلوب کے حامل شعرا کو آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح ثمینہ بھی کچے پکے نسوانی جذبات کی شاعری سے بہت بلند فضا میں پرواز کے سبب سنجیدہ قارئین تک ہی محدود رہیں ۔ جناب احمد ندیم قاسمی اور جناب احمد فراز کے علاوہ بےشمار مشاہیر کی ان کے بارے میں آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منفرد موضوعات اور اسلوب کی وجہ سےاردوزبان کے نہ صرف موجودہ موجودہ بلکہ آئندہ منظرنامے میں بھی نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں ۔
نمونہ کلام
میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی
—————————————-
تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی
طالب کوئ میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
——————————————-
ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں
اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں
زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں
ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں
——————————————————
یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے
جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے
سوزِ درون ِ قلب کو اتنا کمال دے
جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے
پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات
پھر مطمئن وجود کو روح ِ غزال دے
وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں
وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے
وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرف ِ پُر اثر
اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے
میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں
راحت نہیں، تو مجھ کو بقائے ملال دے
تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبین ِ دل
اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے
———————————
نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں
کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں
ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش
سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں
جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا
اس ایک قطرہء خون کا فساد ھے دل میں
پھر ایک شہر سبا سے بلاو ا آیا ہے
پھر ایک شوق سلیماں نژاد ھے دل میں
ہے ایک سحر دلآویز کا اسیر بدن
تو جال بنتی، کوئ اور یاد ہے دل میں
تمام خواہشیں اور حسرتیں تمام ہوئیں
مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“