گرمیاں جا چکی تھیں اور سردیوں نے پورے گاؤں میں خیمے لگا لیے تھے.. گاؤں کے باہر زمینوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی منگولی شہزادے کا لاؤ لشکر یہاں سے گزرا ہو جو جاتے جاتے درختوں کے لباس بھی اتار گیا ھو.. ہر شے اُجڑی اُجڑی لگتی تھی..
ایسے ہی ایک ننگے درخت کے نیچے ھم پانچ سات لڑکوں کی ٹولی 'چاچا پھَلیا' کے گرد ڈیرا جمائے بیٹھی تھی.. گاؤں میں ھر مَرد 'چاچا' اور ھر عورت 'خالہ' ہوتی ہے.. چاچا پھَلیا کی وجہ تسمیہ ھمیں نہیں معلوم کیا تھی اور اس عمر میں ھمیں کامل یقین تھا کہ چاچا کے شناختی کارڈ پہ بھی نام "چاچا پھَلیا" ہی ہو گا..
چاچا اپنی تین عدد بھینسوں کو چرانے ھر روز صبح سے شام ایسے ہی کھیتوں میں کرتا تھا.. اور ھمیں کبھی کبھی کہانیاں سنایا کرتا تھا.. پڑھا لکھا تو تھا نہیں مگر جانے خود کہانیاں بنایا کرتا تھا..
یہ اُس دن کی بات ہے جس دن چاچا پھلیا ایک ننگے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور ھم اس کے گرد.. چاچا نے آگ جلا رکھی تھی اور ھم سب اپنی اپنی چادروں میں لپٹے بیٹھے تھے.. تبھی چاچا بولا،
"کالے رنگ کا زمانہ آنے والا ہے، شاہ کالے(سیاہ کالے) رنگ دا.. جَدوں مَن کالا تے دَھن وی کالا ہو گا اور لوگ کالے کرتوت کر کے سینہ ٹھونکا کریں گے"
ھم سب بِٹر بِٹر چاچا کو دیکھ رھے تھے، ہماری آنکھوں کا سوال "کیا مطلب" چاچا سمجھ گیا تھا..
"کھوتیو، تم لوگ ابھی نہیں سمجھو گے یہ گَل.. وقت آئے گا اک واری جب سب کو یاد آئے گی میری باتاں"..
اور میں ٹھہرا سدا کا منہ پھَٹ اور باغی، "چاچا گر ہمیں سمجھ نہیں آتی تو کیوں ہمارا وقت کھوٹا کرتا ہے، ہم کرکٹ ہی کھیل لیتے".. اور میں اٹھ کھڑا ہوا..
چاچا نے میرا بازو کھینچ کے بٹھا دیا
" اوئے کھوتے کے کُھر، یہ گَل خالص تیرے لئ ہے، بیٹھ تے سُن..
اک چیز ہوتی ہے بندے کا بُت(جسم) اور اک چیز ہوتی ہے بندے کا مَن جنھوں پڑھے لکھے کچھ اور ہی کہتے ھیں"
جعفر ہم سے دو تین سال بڑا تھا وہ بولا کہ چاچا اسے ضمیر کہتے ھیں.
"ھاں ضمیر، وہ تو اپنے گاؤں کا درزی تھا، کب کا مَر چکا.. خیر جو مَن ہوتا ہے نا وہ بڑا رَنگلا (رنگین) ہوتا ہے، بہت سوھنے سوھنے رنگ پَر اس میں کالا رنگ نہیں ہوتا، جیسے بارش ہو تو چوھدری اللّہ داد کی زمینوں کے اوپر ' گُڈی گُڈے دی پِینگ' (قوسِ قزح) بنتی ہے بالکل ایسے ہی.. صاف سُتھرا مَن..
پَر جب بندہ کالے کام میں پڑتا ہے، جب جھوٹ سے اپنی چیز بیچتا ہے، اور اِک اِک پیسے کے پیچھے اپنا کام بیچتا ہے تو مَن کالا ہونے لگتا ہے، یار دکھیو کھوتیو، جو اپنا کام بیچے وہ اپنا ایمان بیچ رھا ھوتا ہے.. کالے رنگ دا زمانہ آ رھا ھے، جب ہر طرف کالک ہی کالک ہو گی اور جس کا مَن کالا ہو گا اُسے سب ہَرا بَھرا دِکھے گا..
اِک گَل یاد رکھیو، اپنی عینک دے شیشے صاف رکھیو تے کسے دی عینک ادھار نہ لیو.. تے کالی عینک تے کَدی وی نئیں!!
کالے رنگ دی اک بڑی مصیبت ہوتی ہے کہ ہر رنگ کو اپنے جیسا کالا کر دیتا ہے.. کالا شاہ.. کالا"..
چاچا نے ایک نظر اپنی کالی بھینسوں کو دیکھا اور سفید کُرتے کے اوپر کالی چادر کی بُکل مار کے چل پڑا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...