نوٹنکی کا لفظ ہم اکثر بولتے ہیں اور سنتے بھی ہیں ۔عام طورپر جب کسی کی برائی کرنا مقصود ہوتو اس کو نوٹنکی کا خطاب بھی دیتے ہیں ۔یہ نوٹنکی ہے کیا ؟ نوٹنکی کا مطلب کوئی ڈرامہ ، کھیل ، دیہاتی ناٹک ، سانگ یا کھیل تماشہ ہے ۔نوٹنکی کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین تھیٹرز میں ہوتا ہے ۔شمالی ہندوستان میں سفری تھیٹرز عوام کی تفریح کا سب سے بڑا زریعہ تھے۔یہ تھیٹرز دیہی روایتی میلوں میں لگائے جاتے جہاں پر ہندو دیومالائی کہانیوں کے کرداروں کو پیش کیا جاتا۔رامائن یا مہابھارت یا پھر لوک داستانوں کو عوام کےسامنے پیش کیا جاتا۔ ان ڈراموں میں ہر اداکار کہانی کے کردار کے مطابق رنگ روپ اختیار کرتا تھا۔وہی جملے بولتا جو تاریخی کتابوں یا کہانیوں میں لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
عوام کا جم غفیر سنی یا پڑھی ہوئی کہانیوں کو کرداروں کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو ان کی دلچسپی انتہاوں کو چھو رہی ہوتی تھی۔نوٹنکی کے دوران شائقین کی تفریح طبع کے لیے گانے اور ڈانس بھی شامل کیئے جاتے تھے۔اگر کسی رقاصہ کا رقص شائقین کو پسند آجاتا یا کسی کردار کے ڈائیلاگ پسند آجاتے تو اس کو دوبارہ اسٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے بلا لیا جاتا تھا۔قصہ مختصر یہ کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کے یہ محض ڈرامہ ہے اور تمام کردار نقلی ہیں عوام اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے نوٹنکی دیکھنے جاتے تھے۔کہانی کے اعتبار سے کبھی خوش ہوکر تالیاں بجاتے تو کبھی دکھ کی گھڑی میں رونے لگ جاتے یا پھر کسی ظلم زیادتی کے خلاف غصے کا اظہار کرتے تھے۔
وقت بدلا دنیا نے ترقی کی اور ٹیلی ویژن ایجاد ہوگیا۔میلوں میں ہونے والی نوٹنکی اب ہر گھر میں زیادہ بہتر انداز میں پیش ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹیلی ویژن تفریح کا سب سے بڑا زریعہ بن گیا۔ایسے ایسے ڈرامے پیش کیئے گئے کہ جب وہ آن ائیر ہوتے تو سڑکیں اور بازار سنسان ہوجاتے ۔اداکاروں نے کہانی کے کرداروں میں اس قدر ڈوب کے اداکاری کی کہ آج تک بہت سے کردار شائقین کو یاد ہیں۔بلکہ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ کچھ اداکاروں کے اصلی نام تک لوگ بھول گئے اور ان کو ڈرامے کے کرداروں سے یاد کیا اور پکارا جانے لگا۔یہ نوٹنکی اور اس میں ہونے والی اداکاری کی معراج تھی۔
بات نوٹنکی اور اس کے کرداروں کی ہورہی ہے تو سیاست بھی تو کسی نوٹنکی سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ ستر دھائیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ یا ناٹک پیش کیا گیا ہے۔ان ناٹک میں کام کرنے والے اداکار اتنے منجھے ہوئے تھے اور ناٹک کے کردار کے اندر اس قدر ڈوب کراداکاری کرتے تھے کہ لوگ ان کے اصل نام تک بھول گئے اور ان کو کہانی کے کرداروں سے ہی یاد کیا جانے لگا۔قدیم نوٹنکی میں اداکار تاریک کمروں میں تیار ہوتے اور پوری طرح سج دھج کر اسٹیج پر نمودار ہوتے تھے ۔اور سامنے بیٹھی عوام ان کے نمودار ہوتے ہی خوشی سے تالیاں بجانے لگتی یہ ایک طرح سے پسندیدگی کا اظہار ہوتا تھا اس سے اداکار کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔
موجودہ دور میں بھی اداکار تیار کہیں اور ہوتے ہیں اور سج دھج کر اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں تو ہمیشہ کی طرح سامنے بیٹھی عوام ان کا استقبال تالیوں سے کرتی ہے۔اداکار کہانی کے کردار کے رٹے رٹائے جملے ادا کرتا ہے اور عوام عش عش کراٹھتے ہیں۔اور نوٹنکی کا ڈائریکٹر عوام کا ردعمل دیکھ کر مطمئن ہوتا ہے کہ کردار کی پرفارمنس شاندار ہے۔یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ تھیٹر میں جب کسی اداکار نے عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا اور اچھی اداکاری نہیں کی تو کسی دوسرے میلے میں لگنے والے تھیٹر میں وہ اداکار تبدیل کردیا جاتا اور اس کی جگہ نئے اداکار کو موقع دیا جاتا۔
قصہ مختصر کہ زمانہ قدیم سے شروع ہونے والی نوٹنکی نے وقت کے ساتھ ساتھ جدت اختیار کرلی مگر عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا مقصد تاحال نہیں بدلا۔عوام آج بھی اپنے کھیت کھلیان ، کاروبار چھوڑ کر نوٹنکی دیکھنے میں مصروف ہے۔اسٹیج پر موجود اداکاروں کی لازوال اداکاری پر جھوم رہی ہے کبھی تالیاں بجاتی ہے تو کبھی غصے کا اظہار کرتی ہے اور کبھی ان کرداروں کے ساتھ رونے بھی لگ جاتی ہے۔ہر بار پردہ اٹھتا ہے اور ایک نیا فنکار اسٹیج پر موجود ہوتا ہے۔عوام کی جب اس کردار میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے تو اس کی جگہ پر دوسرا اداکار آجاتا ہے۔
تھیٹر کے مالک کو عوام کی دلچسپی کا اندازہ ہوجاتا ہے اس لیئے وہ طے کرتا ہے کہ کس فنکار کو کتنی دیر اسٹیج پر رہنا ہے اور کس کو بار بار بلانا ہے ۔اس بار بھی ڈائریکٹر عوام کی دلچسپی کو دیکھ کر طے کرچکا ہے کہ اداکار کی اداکاری میں دم نہیں ہے اس لیے اگلے ناٹک میں اس کو بدلنا ضروری ہے۔اگر اداکار کو نہ بدلا گیا تو عوام متوجہ نہیں ہوگی اور عوام کی عدم دلچسپی سے کہیں تھیٹر ہی بند نا کرنا پڑجائے۔اب کاروبار کا گھاٹا کون سا کاروباری کرتا ہے لہذا ناقص کارکردگی پر اداکار کی تبدیلی لازم ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ناٹک میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اگلا اداکار کون ہوگا ۔کیا وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرپائے گا۔کیا اس کی اداکاری میں اتنی کشش ہوگی کہ وہ جب تک اسٹیج پر رہے عوام کی نظریں اس پر جمی رہیں۔ایسے اداکار کی تلاش مشکل سہی مگر شائد ناممکن نہیں ہے
اگلے ناٹک کی تیاری بجا تاہم فی الوقت ڈرامہ بری طرح پٹ چکا ہے۔اسٹیج پر موجود اداکاروں کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہے۔تالیوں کی بجائے اسٹیج پر موجود فنکاروں کے لیے فقرے کسے جارہے ہیں ۔عوام کو اپنے پیسے اور وقت کے ضیاع پر غصہ آرہا ہے۔اوور ایکٹنگ سے عوام چڑکھانے لگی ہے ۔آدھا پنڈال خالی ہوچکا ہے جو شائقین موجود ہیں وہ بھی پیسے پورے کررہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈائریکٹر کو چاہیے کہ فوری طورپر نئے اداکاروں کی تلاش شروع کردے وگرنہ ان فنکاروں کے ساتھ یہ "کمپنی نہیں چلے گی"اور مالی خسارہ مالکوں کو بہرحال کسی صورت مںظور نہیں ہوتا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...