یہ 1992 کی ایک گرم اور حبس زده دوپہر کی بات هے _
بائیک پر جہلم شہر سے سرائے عالمگیر کی طرف آ رہا تها _ ریلوے پل کے پاس پہنچا تو دیکها ایک جوان لڑکی پل کے نیچے سے اپنے کپڑے سنبهالتی , چینختی چلاتی بهاگ کر اُوپر سڑک پر آ رہی تهی _ پیچهے چھ سات مشٹنڈے جو اُسکو پکڑ کر دوباره پل کے نیچے لیجانا چاہتے تهے _ ہر طرف ہو کا عالم _ سڑک بالکل ویران _میں نے بائک روکی _ وه لڑکی میرے پیچهے آ کر چهپ گئی اور بولی _ بهائی , مجهے ان لوگوں سے بچا لو _ یہ میری عزت لوٹنا چاہتے ہیں _
میں اُن دنوں میدان کا کهلاڑی اور اپنی جسمانی فٹنس کیلئے مکمل پر اعتماد تها _ایک سیکنڈ میں ہی فیصلہ کر لیا کہ جو بهی ہو _ مر جاؤنگا پر اس لڑکی نے پناه مانگی ہے , اس کی حفاظت کرونگا _
ان لوگوں پر شیطان سوار تها_ میں نے بہتیری منت کی کہ لڑکی کو چهوڑ دو پر اُنہوں نے میری ایک نا سنی _ مجهے دهکا دیا اور لڑکی کو اٹها لے جانے کی کوشش کرنے لگے _
میں نے ایک کو پکڑا اور اُٹها کر سڑک پر دے مارا _جبکہ دوسروں نے مجهے پکڑ کر گرا دیا اور میری دهنائی شروع کر دی _تقریبا آدها منٹ یہ سین چلا هو گا _ تب تک سڑک پر چند راه گیر آ گئے اور یوں میری اور اُس لڑکی کی جان چهوٹی _
میرے ہونٹ پهٹ گئے _مکوں کی بارش سے مونہہ سوج گیا _چیچی اُنگلی چبا لی گئی اور شاید کسی کے پاس بلیڈ بهی تها _ بائیں هاتھ کا انگوٹها کافی سارا کٹ گیا _آج بهی نشان ہے _
چھ , سات لوگوں نے مل کر مارا تها _خون نہیں رک رہا تها _ قمیض تار تار ہو چکی تهی _ سڑک پر ہی بیٹھ گیا _ اس بہن نے میری قمیض مزید پهاڑ کر پٹی بنائی اور میرے انگوٹهے پر باندھ دی _ میں نے اس سے پوچها کہ بہن آپ بچ گئی ہو , بولی _جی بهائی _اللہ پاک نے میری حفاظت کی _ اُس کے اس جواب پر ناقابل بیان تسلی ہوئی _بہتا خون , پیٹ میں لگے ٹهڈے اور چبائی انگلی بهی لذت دینے لگ گئی _
میں نے لڑکی کو کہا کہ آپ جاؤ _ وه بولی کہ بهائی یہ لوگ میرے پیچهے آ جائیں گے _ آپ مجهے دریا پار کروا دو _ میں نے اُسے پل پار کروا دیا _ بائک سے اترتے هوئے وه بولی کہ بهائی میں فقیرنی ہوں _ لوگوں کا اندر بهی پڑھ لیتی ہوں _
آپ یقینا اسوقت کسی مصیبت میں ہیں _میری آپ کو دعا ہے _ آپ کے گهر پہنچنے تک وه مصیبت ختم هو چکی ہو گی اور باقی کی زندگی بهی اللہ کی رحمت آپ کے ساتھ رہے گی _
وه مزید بولی کہ یہ جنہوں نے میری عزت پر هاتھ ڈالا اور آپ کا خون بہایا _ ان کا حشر بهی آپ صرف آج رات تک دیکھ لیں گے _
تب میں بطور جونیئر افسر ایک ایگزیکٹو پوسٹ کا چارج ہولڈر لیکن کسی انتظامی مسلئے کی وجہ سے شدید پریشان تها _بہت حیرانگی ہوئی کہ اس لڑکی نے میرے دل کی بات کیسے جان لی _ وه کون تهی _ ؟
اب خون سے لتهڑا , سوجے مونہہ اور پهٹے کپڑوں کے ساتھ میں اپنے محلے تو جا نا سکتا تها _ شام تک چهپ چهپا کر سرائے عالمگیر نہر کنارے بیٹها رہا اور اندهیرا ہونے پر گهر کی راه لی _
گهر پہنچا _نئی نئی شادی ہوئی تهی_ بیگم میری حالت دیکھ کر ایک بار تو بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی _ اُن کو ساری بات بتائی تو اُنکی تسلی ہوئی اور بولیں کہ آپ نے اچها کیا _ ساتھ هی مجهے ایک سرکاری خط نکال کر دیا کہ یہ آپ کا کلرک دے کر گیا تها _
خط پڑها تو مجهے فقیرنی یاد آئی _میرا وه انتظامی مسلئہ میرے حق میں حل ہو چکا تها _اس فقیرنی کی دعا اللہ کی بارگاه میں قبول ہو چکی تهی _
رات بیگم صاحبہ نے دودھ میں دیسی گهی , انڈا اور هلدی ڈال کر پلائی اور مجهے تهپک کر سلا دیا _
رهائش دریا کے کنار ے پر تهی _ پچهلی رات بجلی بند هوئی تو آنکھ کهلی _بیگم صاحبہ نے بتایا کہ دریا والی سائیڈ پر کافی شور ہے _صحن میں گیا تو دیکها کہ نالی کا پانی الٹی سائیڈ چل کر باہر سے میرے گهر آ رها تها _
پتا چلا کہ بہت زوروں کا سیلاب چل رها ہے _ تقریبا بیس فٹ پانی ایک دم ہی چڑها اور ہر چیز بہا کر لے گیا _شہر جا کر دیکها تو مین بازار جہلم کی چهتوں پر سے پانی جا رہا تها _
اچانک ہی دماغ میں اس فقیرنی کی بات گهوم گئی کہ _ ان کا حشر بهی آپ صرف آج رات تک دیکھ لیں گے _
اُسی ریلوے پل کی طرف گیا جہاں اس مظلوم کو چهڑوایا تها _ ریپ اٹیمپٹ کرنے والے لوگوں کا پتا کیا کہ وه کون تهے اور اب کدہر ہیں _ پتہ چلا کہ وه سبهی لوگ تانگه بان تهے _ پل کے ساتھ نشیب میں گهوڑے تانگے باندهتے تهے اور وہیں ٹینٹوں میں ان کی رهائش تهی _ رات پانی آیا اور ان کے گهوڑے تانگے , بال بچہ اور وه خود _کل ملا کر تیره , چوده افراد بہا کر لے گیا _
اس فقیرنی کی بد دعا بهی فورا ہی اللہ پاک کی بارگاه میں پہنچ کر اثر دکها چکی تهی _
ان دو واقعات کے بعد وه ,, فقیرنی ,, میں نے بہت ڈهونڈی _ بہت گلیاں محلے پهرے _ اپنے تمام تر وسائل کو استعمال کیا _ پر وه نہیں ملی _
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...