کام کاج کے لئے تینوں بیٹوں کی علیحدہ علیحدہ ڈیوٹیاں لگائی ہوئی ہیں ۔ بڑے والا بزنس ہال کا کام کرے گا ۔ درمیان والا حسن صاحب باہر کا اور تمام تر مکینکل کام جبکہ چھوٹے والا گھر کے اندر کا تمام کام کرے گا ۔ اگر کوئی بڑا کام ہوا تو ہم چاروں باپ بیٹے مل کر کریں گے ۔
درمیان والے اُنیس سال کے حسن صاحب جب بھی باہر جاتے ہیں تو اس کے آنے جانے کی ٹائمنگ کا پورا حساب رکھتا ہوں ۔ یہ حساب رکھنے کی وجہ میرے اندر کا وہ پیار اور فکر ہے جو ایک باپ اپنے بچوں کیلئے کرتا ہے ۔ آج سوچا کہ بچوں کو چیک کرایا جائے ، میرا یعنی ایک باپ کا اپنے بچوں بارے اندازہ غلط ہوتا ہے یا کہ ٹھیک ۔ ؟
بیٹے کو کہہ دیا کہ تُمہیں ایک کام کیلئے بھیجنا ہے لیکن بُرا مت منانا ۔ ہر چند منٹ بعد تمہیں فون کر کہ پُوچھوں گا کہ تم کہاں ہو اور تُم فوراً ہی مُجھے اپنی لوکیشن بتاؤ گے ۔ بیٹا بولا کہ ٹھیک ہے ابو ، آپ پوچھنا ۔ میں اپنی ایگزیکٹ لوکیشن بتاؤں گا ۔
بیٹے کی ڈیوٹی تھی بائیک پر ملت ٹاؤن تا مچھلی فارم ستیانہ روڈ جانا اور واپس آنا ۔ مجھے پتا کہ شہر میں اس کی بائیک کی سپیڈ کیا ہوتی ۔ دوپہر ٹھیک بارہ بجے اس نے اللّہ کا نام لیکر گھر سے بائیک کو کَک لگائی ۔
دس منٹ بعد میں نے اُسے فون پر کہا کہ میرے حساب سے اب تُم جھمرہ روڈ اوور ہیڈ برج کے نیچے ہو وہ بولا جی ابو وہیں ہوں ۔
پچیس منٹ بعد میں نے فون کیا کہ اب تم پیپلز کالونی تھانے سامنے ہو ، جواب ملا جی ابو میرے لیفٹ پر وہی تھانہ ہے جہاں سے میں نے لائسنس بنوایا تھا ۔
ابھی بچے کو گھر سے نکلے پینتیس منٹ ہو چکے تھے حساب لگایا کہ اِس وقت اُسے چالیس کوٹھیوں والی روڈ کے سامنے ہونا چاہئے ۔ فون کیا اور پوچھا تو بولا کہ ابو اس جگہ کا نام تو نہیں آتا البتہ بائیں ہاتھ ایک پتلی سی روڈ کا ٹرن اور پٹرول پمپ ہے ۔ اس سے پتا چلا کہ میرا اندازہ ٹھیک تھا ۔
بارہ بجکر پچپن منٹ پہ فون کیا ۔ میں نے کہا کہ بیٹا میرے حساب سے اب تُم بائیک کھڑا کر کہ متعلقہ گھر کی ڈور بیل بجا رہے ہو ۔ وہ یہ بات نہیں مانا ، اُلٹا سوال کیا کہ ابو آپ کو کیسے پتا ۔ میں نے کہا کہ پہلے تم پہلی بیل پر کال اٹینڈ کرتے رہے ، اب تھوڑی دیر لگائی ۔ تو اِس سے سمجھ آیا کہ اس وقت تُم بائیک سٹینڈ پر لگاتے ہوئے ڈور بیل بجا رہے ہو ۔ بولا بالکل ابو ، ابھی میں بائیک کھڑا کر کہ مُتعلقہ گھر کی بیل بجا رہا ہوں ۔
ایک بج کر پندرہ منٹ پر میں نے اُسے کال کر کہ بتایا کہ اب تم واپس آ رہے اور محمد آباد کے برابر میں ہو ۔ بیٹا بولا کہ ابو جی آ تو رہا ہوں لیکن یہ نہیں پتا کہ اس آبادی کا نام کیا ہے ۔ میں نے کہا کہ کسی سے پوچھو تو پوچھ کر بولا کہ ابو اس وقت لیفٹ پر محمد آباد ہے ۔
گھر میں چھوٹا اور بڑا بیٹا ، دونوں میرے پاس بیٹھے تھے ۔ ایک بجکر پچاس منٹ پر میں نے چھوٹے کو بولا کہ حویلی والا گیٹ کھول دو ۔ تمہارا بڑا بھائی آ گیا ہے ۔ چھوٹے نے گیٹ کھولا اور فوراً ہی ڈیئر حسن صاحب بائیک کی ٹیں ٹیں بجاتے اندر تشریف لے آئے ۔
میری بیٹیوں نے جب دنیا میں آ کر آنکھ کھولی تو وہ ایک ایک بچے کی ماں بن چکی تھیں ۔ ان کی نظر میں تو خاوند اور باپ ہی سب کچھ ہے لیکن بیٹے بسا اوقات سمجھتے ہیں کہ باپ تو اندر کمرے میں دھوتی باندھ کر کولر آگے بیٹھا ۔ اُسے کیا پتا کہ ہم کدھر اور کیا کر رہے ہیں ۔
بچوں کو سمجھنا چاہئے کہ باپ تو باپ ہی ہے ۔ چاہے دھوتی والا ہو اور چاہے پینٹ والا ۔ باپ اپنی اولاد بارے سب کُچھ جانتا ہے ۔