"وستی شالا وستی نال آلاوے پئی"
سندھو کے ویاس جی اشو لال کی یہ دعا یقیناً پوسٹ کلونیل عہد میں جب " ہر شخص کہیں گیا ہوا ہے" روایات اور رشتوں کی توڑ پھوڑ سے اٹھنے والی گرد سے حبس کے وقت مانگی گئی ہو گی۔ کوروں کی پہلی پیش قدمی جس نے تہذیبی انیٹ سے لوگوں کو ذاتوں میں تقسیم کر کے اس خطے میں پہلی مونجھ کی بنیاد رکھی دائرہ کھینچ کر خودکو محصور کر لیا اور دھرتی واسوں کوں مضافات میں " نگے پنڈے لگن چھمکاں" کے لئے دھکیل دیا۔
گندم کی پاداش میں نکالے جانے والوں نے گندم کو ہی مقدس جانا ، کسی بھی جنگی اوزار سے ناواقف دھرتی واسیوں نے دھرتی پر پسینہ بہا کر اپنے حصے کا رزق حاصل کرنا شروع ہی کیا تھا کہ ایرانیوں یونانیوں عربیوں اور افغانیوں کی تلواروں گھوڑوں کے ڈر سے زمین نے پچھلے قتلام میں بھی مارے جانے والوں تک کا خون اگلنا شروع کر دیا اور خراج کے طور پیش کر کے اپنے سر کٹے بیٹوں ، چادر لٹوائے بیٹیوں اور سہاگ اجڑے رودالیوں کے لئے آمان مانگی، جب " جہاں میں کہیں نا آمان ملی" تو دھرتی واسیوں نے دھاڑ وو دھاڑ وو کرتے ہوئے سندھو اور چندر آب کو دھائی دی اور گھر میں پردیسی ہونے کا خوف لاشعور کا حصہ ہو گیا جو کہ اس خطے کی مونجھ کی دوسری شکل تھی، حالات کی ماری سندھو کی اندھی بلہنڑ نے گلے لگایا اور چندر آب کی روانی نے جیون منتر بخشا اور پھر پہلی بار مردود حرم مٹی سے گگو گھوڑے اور واشک دیو بنا کر ان کو دھرتی کے رنگ لگا کر شہروں میں آئے اپنے ہونے کا اعلان کیا جن کی سروں میں پرکھوں کی چیخیں ڈاکھنڑی بن چکی تھیں جن کے ڈھول ماڑو بجاتے تھے جن کی ساری کتھا جوگ میں تھی ۔ یہ تھی دھرتی واسیوں کی کل مزاحمت جو وسوں کے شعراء نے کی اپنی وسوں کو دیکھنے فوجی دستوں کی صورت نہیں بلکہ سخی سرور کے سنگ کے ساتھ جھومری بن کر آئے تھے ، یہ مزاحمت کی وہ رمز تھی جس نے مونجھ سے جنم لیا ۔
مونجھ مزاحمت کیسے بنتی ہے ؟ دنیا کا مہذب احتجاج اس وقت کون سی قوم کر رہی ہے؟ ریاستی تاریخ کے بدلے شعراء کی بیان کی ہوئی تاریخ کو مان کس نے بخشا؟ لوک متھ سے جیون منتر کیسے کشید ہوتا ہے؟ محبت کیونکر آج بھی فاتح عالم ہے؟ ہمسایوں کے ساتھ شاستری ارتھ کی بجائے مقامی آدرش میں رہنا کیا ہوتا ہے؟ زبانوں کا جنم کیا ہے مرن کیا ہے؟ ہکلانے سے زبانوں کے آخری سانس لینے کے پیچھے کون سا دیو ہے جو سانس پئے جا رہا ہے؟ مہذب زندگی کے نام پھیلائی جانے والی زہر کی تہہ سے دنیا میں قومیں کیسے انگڑائی لے کر اٹھ رہی ہیں؟
یہ ہیں وہ کتھائیں جو مونجھ سے مزاحمت کے سفر میں اس دھرتی کے محبوب نے جنگلوں، صحراؤں پہاڑوں میں آدم بیزاری سے نہیں بلکہ گلیوں شہروں گوٹھوں میں آدم زاد سے مل کر لکھیں ہیں ، کیونکہ اس کرہ ارض کی آج بھی سب سے معتبر گواہی آدم ہی ہے۔ یہ کتاب گلوب پہ پھیلی حبس میں جیون کی کھڑکی ہے جس میں سے بستی جو بستی سے روٹھ گئی تھی آلائے گی ، جو سوال اشو لال نے مونجھ سے پوچھا تھا "اڑی مونجھ ڈسا کیویں کتھا کروں کیویں کتھا کروں اڑی مونجھ ڈسا" اس کا جواب مونجھ نے رانا محبوب اختر کے قلم سے دیاہے ، پہلی بار اس خطے کی مونجھ دنیا سے کلام کرنے جا رہی ہے اور اپنا مقدمہ یونائیٹڈ نیشنز کے کسی فورم پہ نہیں بلکہ افریقیوں لاطینی امریکیوں، جنوبی انڈیا کے تاملوں کے کسی تہواروں میں مقامی جھمر سے پیش کرے گی اور مونجھ کا رشتہ بنائے گی اس جھمر کے سارے گیت سرائیکی وسوں کے زندہ آفاقی شعراء سے لے کر دھن کا سجایا گیا ہے، شعراء کے ہی شبد معتبر ہیں کیونکہ دھرتی کی خوشبو سے معطر ہیں، جس کی گواہی یورپین لٹریری سرکل کی صدر صدف مرزا نے دی ہے۔ مونجھ سے مزاحمت کشید کرنے پر وسوں ، وسوں کے مردود حرم ، اور ان حرموں میں زمانوں سے بددعائیں لیتے راکشس، راکشسوں کی چتاؤں میں جلتی سیتائیں آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“