سیاسی گفتگو سے پرہیز مت کیجیے
۔
لڑکپن میں میں نے ضیاء الحق کا عروج دیکھا۔ پچھلے مارشل لاء مل ملا کر قوم کو پہلے ہی چپ خموش کر چکے تھے۔ ڈکٹیٹر (جو اس وقت مرد حق لگا کرتا تھا) کے خلاف بولنا جرم تھا۔ جو آج مسنگ پرسن کا رونا روتے ہیں، تب کی فضا میں سانس لیتے تو آج سجدہ شکر بجا لاتے۔
سیاسی آزادی اور اظہار کی آزادی صرف اور صرف شادی بیاہ پر ویلیں بٹورتے بھانڈوں کو تھی۔ وہ جگت ہی جگت میں ضیا کے دور کی ظلمتیں بیان کرتے اور دبے ، گھٹے لوگ اندر ہی اندر ہنس کر اپنا کتھارسس کرتے۔
چائے خانوں، چوک چوراہوں، اور نائی کے تھڑے پر ایک عبارت ضرور لکھی ہوتی۔ "یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے" ۔ یوں لڑکپن سے جوانی تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ سیاست ایک گندہ کام ہے، اور اس پر گفتگو کرنا تو ہئی حرام۔
پھر ہم بڑے ہوگئے۔ تو پتہ چلا کہ سیاست اس لیے گندی اور بدبودار بنا دی گئی ہے تاکہ کاکروچ اور چمگادڑیں ہی زندہ رہ سکیں۔ سیاسی گفتگو اس لیے عام آدمی پر حرام قرار دیدی گئی ہے تاکہ غریب اپنے دکھوں اور تکلیفوں کو من جانب اللہ سمجھ کر روکھی سوکھی پر زندہ رہے۔ اور طاقتور مگر غلیظ اور خون آشام مخلوق ان غریبوں کی ہڈیوں کے گودے کا شیک نوش جاں کرتے رہیں۔
یہ بھی پتہ چلا کہ خیرات کے ہزاروں ادارے بھی کھل جائیں اور ایدھی جیسے نابغہ روزگار انسان ہر شہر میں پیدا ہو کر اپنی ساری زندگی غریبوں کے لیے بھیک مانگتے رہیں، تب بھی ہم انسانیت کی اس سطح پر نہیں پہنچ پائیں گے جہاں یورپ کا کوئی ایک غریب ملک پہنچ جاتا ہے۔
اسکی وجہ کا کھوج لگایا تو صرف اور صرف ایک ہی بات پتہ چلی۔ وہ یہ کہ ان ملکوں میں خیراتی ادارے نہیں، میرٹ پر خودمختار اور شفاف ادارے کام کرتے ہیں۔ اور ان ملکوں میں سیاست خواص نہیں عوام بھی کر سکتے ہیں۔ بس ڈرائیور کے بیٹے میرٹ پر (شعبدے بازی سے نہیں) وزیر بن جاتے ہیں۔ اور یہ کہ ان ملکوں میں نائی کی دکان اور چائے کے ڈھابے پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کیجیے۔
دوستو، اس ساری خودکلامی کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند روز سے میں ایسی پوسٹس دیکھ رہا ہوں جن میں لوگ موجودہ سیاست سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہ چھوڑو سب ایک سے ہیں۔ چھوڑو ان بحثوں کا کیا فائدہ، کسی نے ماننا تو ہے نہیں۔ ہر وقت سیاست سیاست، دفع کرو کسی اور موضوع پر لکھتے ہیں، لوگ بھی تنگ آگئے ہیں۔ ایک نوجوان دوست نے تو یہ بھی لکھا کہ میرے دوست ناراض ہوجاتے ہیں اس لیے آئندہ سیاسی پوسٹ نہیں لگایا کرونگا۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ مگر میرا یہ کہنا ہے کہ یہی تو وہ خون آشام مخلوق چاہتی ہے۔ پروپیگنڈہ، نعرے بازی، ہلڑ بازی، الزام در الزام، طعنہ و دشنام یہ سب انکو خوش آتا ہے۔ یہ انکا میدان ہے۔ انہوں نے بڑی محنت سے یہ فضا بنائی ہے کہ عام لوگ اس سیاست کی گلی میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ اور ایک ایک کرے واپس اپنے کنج عافیت میں لوٹ آتے ہیں۔ مگر اسکے بعد ہوتا کیا ہے؟ اس کے بعد اس مخلوق کی مرضی چلتی ہے۔ میدان خالی ہوتا ہے۔ جہاں کہیں غریب اور عام بندے کی آواز اٹھ بھی رہی ہوتی ہے، وہ بھی معدوم ہوجاتی ہے۔
دوستو! میری صرف اتنی سے درخواست ہے کہ سیاست خیرات ہی کی ایک قسم ہے کہ اس سے غریب انسانیت کی وہ مدد ہوتی ہے جو ہزاروں لاکھوں کی خیرات سے نہیں ہوتی۔ اچھے اداروں کے لیے کوشش کیجیے۔ اچھے نمائندوں کے لیے کوشش کرتے رہیے۔ تو نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیجیے۔ وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ حالات کو بدلنے والا ہے۔
آخری بات یہ کہ اگر ہم سمجھ لیں کہ لڑائی جھگڑے میں ہم عوام کی شکست ہے، تو ایک دوسرے پر جگتیں، ایک دوسرے کی پارٹی کو گالیاں، طعنے ، یا برے نام رکھنے کی بجائے ہم ایشوز پر بات کرتے رہیں۔ دوسرے کے نکتہ نظر کو برداشت کرنا سیکھیں تو شائد اتنا برا ماحول بھی نہ رہے اور ہمیں دوستوں کی ناراضگی کی وجہ سے سیاست پر بات سے پرہیز بھی نہ کرنا پڑے۔
بحرحال میری تو یہی درخواست ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز مت کیجیے۔ اسکو جاری رکھیے۔ جمہوریت میں ہر فرد کی رائے کی اہمیت ہے۔ اس لیے ہر فرد تک پیغام پہنچانا، اور ہر فرد کو ایجوکیٹ کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“