سیاسی ٹاک
۔
کچھ لوگوں کو اسد عمر کی ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں والی بات مبالغہ لگ رہی ہے۔ بلکہ نون لیگ کی احسن اقبال ٹیم نے ایک جانب مفتاح اسمعیل کو بٹھا کر جو پریس کانفرنس کی، اس میں مفتاح اسمعیل نے سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ ایک کروڑ ملازمتوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ ویسے تو ایسی سوچ پر بہت سے لطائف بیان کیے جاسکتے ہیں۔ مگر اسکی بجائے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ مسلسل مافیائی جبر کے نتیجے میں لوگوں کی ذہنی کیفیت واقعی ایسی ہو گئی ہے کہ وہ کسی بھی مثبت بات کو انہونی سمجھتے ہیں۔ انکے ذہن اس قدر مفلوج کردیے گئے ہیں کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کے پاکستان کے اردگرد جو ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، وہ بھی اسی دنیا میں ہو رہی ہے۔ انکو جو بتا دیا جاتا ہے کہ ترقی کا طریقہ بس وہی ہے جو ہم پاکستان میں کر رہے ہیں، اور وہ کورین کمپنی ڈائیوو کے پاس 25 سال کے لیے رہن رکھی موٹر وے ہوسکتی ہے یا چائنہ سے لیے گئے متروک کوئلے والے پلانٹ۔ یا پھر اربوں کے کک بیکس سے تیار کردہ فلائی اوورز۔ اس کے علاوہ دنیا میں کچھ بھی ممکن نہیں۔
سعودیہ میں میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کچھ عرصہ کنسلٹنٹ رہا۔ اسکے علاوہ ایک آئل کمپنی میں کچھ عرصہ ایسی میٹنگز تک رسائی رہی جن میں پراجیکٹس کی مین پاور اور ریسورسز زیربحث آتے تھے۔ وہیں میں نے دیکھا کہ صرف ایک ائیرپورٹ کا پراجیکٹ تقریباً 15 ہزار ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔ اربوں روپے کی ایکٹوٹی شروع ہوتی ہے۔ اور اس پراجیکٹ کی تکمیل سے اربوں ہی کا ملکی فائدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کیا بیس بائیس کروڑ کے ملک میں، تقریبا آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایسے دس بیس پراجیکٹ نہیں شروع کیے جا سکتے ؟ صرف دس سے بیس پراجیکٹ ایک ملک کے لیے کتنے ہوتے ہیں؟ محدود ذہنیت اور بدنیت سیاستدان کے علاوہ سب کو اسکی فیزیبلٹی نظر آ جاتی ہے۔
اب آجائیے پچاس لاکھ گھروں کی طرف۔ صرف لاہور میں ڈیفینس کے ایک فیز میں ایک بلاک کے پلاٹوں کی قیمت کو اربوں میں لکھ کر دیکھیں۔ آپ کتنے صفر ڈالنے ہیں اسکی گنتی بھول جائیں گے۔ پیراگون جیسی اسکیموں سے کل ہماری گلیوں میں رلتے پھرتے سیاسی وزیر کے دن پھر گئے ہیں۔ ملک ریاض نے اسی پراپرٹی سے اب پورے ملک کو تقریباً یرغمال بنا لیا ہے۔ جاتی امرا والوں نے 80 روپے مرلہ زمین خرید کر رائے ونڈ کے گرداگرد اربوں کو کھربوں میں بدل دیا ہے۔
ایسے میں اگر کوئی آپ کو یہ کہتا ہے پاکستان میں پچاس لاکھ گھر بنانے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے تو اس پر کیا سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ جو ایسا کہہ رہا ہے، اس نے کونسا کوشش کی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کرے۔ اسکی مقصد تو صرف پوائینٹ اسکورنگ کرنا ہے۔
اسد عمر ہو، عمران خان ہو، یا کوئی اور۔ بات یہ نہیں کہ وہ کیسی مضحکہ خیز بات کہتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات تو ہر کوئی کر رہا ہے۔ سوال بس اتنا ہے کہ وہ مضحکہ خیز بات باقی دنیا میں ہورہی ہے یا نہیں۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ باقی دنیا میں صرف بیس پراجیکٹ سے ایک لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں۔ اور صرف چند علاقوں کی پراپرٹی ایویلوایشن سے اور حکومتوں کی عام آدمی کے لیے نیک نیتی سے لوگوں کو گھر دستیاب ہورہے ہیں۔
اب آپ مجھے بتا دیجیے کہ وہ مضحکہ خیز باتیں، جن کو آپ "دین و ایمان" بنائے بیٹھے ہیں، وہ دنیا میں کہاں ہورہی ہیں؟ کسی دنیا کا حکمران تیس سال کا حساب دینے کی بجائے ہر فورم پر جھوٹ پر جھوٹ بول کر، قومی لیڈر کہلا سکتا ہے؟ صرف اتنا بتا دیجیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“