دلبر بھائی اور انڈین حسینہ کی عخیدت (عربستان کی یادیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دلبر بھائی طبعیت کے نہایت شریف واقع ہوئے تھے۔ نیت میں البتہ بار بار شیطان کے بہکاوے میں آ جایا کرتے۔ چیٹ سرورز (فیس بک نہیں تھی تو ٹھرکیوں کا مسکن آن لائن ادھر ہی ہوا کرتا تھا) کا زمانہ تھا، کام سے جب بھی فرصت ملتی میں دنیا بھر کی "گپ گاہوں" میں گھومتا رہتا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب میں نے ترکی سے کینیڈا تک دوستیاں نکال لی تھیں جن میں سے کچھ آج تک قائم ہیں۔
ایک روز دلبر بھائی میرے کیبن میں آئے اور کہنی مار کر زیر لب بڑبڑائے (تاکہ دوسرے کیبن میں بیٹھا حیدرآبادی لونڈا نہ سن لے) یہ تم روز کس سے باتاں کرتے رہتے ہو؟ میں نے جب بتایا کہ ان چیٹ رومز میں دنیا جہان کی لڑکیاں کسی شہہ زبان کی لن ترانیوں کی منتظر رہتی ہیں تو دلبر بھائی کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پھیل کر بنٹے بن گئیں۔ ویسے تو وہ بھی آئی ٹی میں تھے اور چیٹ سرورز کا مقصد جانتے تھے، مگر انکی آنکھیں میری لسٹ دیکھ کر پھیلیں۔ ارے تم کیا کہتے ہو انکو، جو یہ سب تمہاری لسٹ میں ہیں؟ اب وہ باقاعدہ منتوں پر آگئے۔
ہو ہو ہو، میں شیطانی ہنسی ہنسا اور دلبر بھائی کو بتایا کہ دنیا میں ہر وہ بات جو ناممکن ہے، اس کھڑکی (کمپیوٹر اسکرین ونڈو) میں لکھ ڈالو، بس تم ہی رجنی کانت ہو پیارے بھیا۔ دلبر بھائی نئے کھلونے کو پانے والے بچے کی طرح کھلے اور پھر یکلخت گیلے پائجامے والے بچے کی طرح بسورنے لگے۔ مگر بھائی، اوو بھائی، انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے "ڈبل مخاطب" کیا تو میں سمجھ گیا کہ آئیڈیا زور کا آیا ہے۔ بھائی تم جانتے ہو، اپنے بس کا نہیں یہ لڑکی وڑکی سے بات کرنا، تم ایسا کرو اپنی لسٹ میں سے ہماری کسی سے ہیلو ہائے کرادو نا۔ لجاجت دلبر بھائی کی چگی داڑھی سے گردن تک ٹپک رہی تھی۔ میں نے حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کی اور ایک انڈین لڑکی دلبر بھائی کے "حوالے" کردی۔ دلبر بھائی کا مختصر تعارف اس مہ رخ کو کروایا اور خاص تاکید کی کہ بندہ اسی کے ملک کا ہے، اس لیے کھل کر دوستی وغیرہ کرلے، اور جو ہم سے اتنے دن مغز ماری کی اس کا حساب بھی دلبر بھائی سے ہی لے لے۔
اگلے پورے پانچ دن ہم دلبر بھائی کے کیبن کی دیوار سے جھانک جھانک کر انکے چہرے کو لال، پھر گلال، اور پھر لہو لہان ہوتے دیکھتے رہے۔ ایک پورا منظر تھا، قسط وار جذبات کی کہانی تھی جو دلبر بھائی کے میسج ٹائپ کرنے سے شروع ہوا کرتی۔ کمپیوٹر پروگرامر ہو کر بھی وہ دو انگلیوں سے ٹائپ کرتے تھے۔ مگر کمپیوٹر کوڈ لکھتے ہم نے کبھی انکی دانتوں میں دبی زبان سے گال کا ابھار نہیں دیکھا تھا۔ زبان اور جذبات دبا کر وہ دو انگلیوں سے میسیج ٹائپ کرتے پھر انگوٹھے کی ہلکی جنبش سے "اینٹر کی" ایسے دباتے جیسے ماہر جواری وہ والا پتہ پھینکتا ہے جس میں اس نے مخالف کو بلف کرنا ہوتا ہے، اور ایک ادائے دلبری سے گردن کو دائیں جانب کو ڈھلکاتے ہوئے ٹیڑھی نظروں سے کمپیوٹر اسکرین پر نظریں جما دیتے۔
اب یہاں سے جوانی کی کہانی نما قسط وار سیریل شروع ہوتی، جس کی ہر قسط تین سے پانچ سیکنڈ کی ہوا کرتی۔ "پتہ پھینک" کر پیچھے ہٹتے تو دلبرانہ مسکراہٹ ہوتی، جیسے بس پٹ گئی چھوری والی کیفیت ہوتی۔ تین سیکنڈ گذرتے تو ماتھے کے اوپر سرے سے تشویشن نیچے کو اترتی (ہونٹ ابھی مسکراہٹ والے زاویے پر رہتے)، اور اگلے پانچ سیکنڈ میں تشویش پریشانی سے ناک اور آنکھوں کے قریب آملتی۔ چہرہ بتا رہا ہوتا کہ وہ تیزی سے اپنے جملے کا وہ مطلب سمجھنے کی کوشش میں ہیں جو حسینہ کو ناگوار لگ سکتا ہے۔
پھر جیسے ہی دوسری جانب سے پیغام آتا تو پڑھنے سے پہلے تین سیکنڈ تشویش اور پریشانی کے نیچے مسکراہٹ دو آتشہ ہوجاتی، پورا چہرہ بتا رہا ہوتا کہ اب خوشی پیغام آنے کی ہے مگر لکھا کیا ہے، اسکی تشویش باقی ہے۔ نظر ٹھیک ہونے کے باوجود آگے کو ہو کر نامہ محبت پڑھتے، پہلے تیزی سے مفہوم جاننے کے لیے، پھر ٹھہر ٹھہر کر مفہوم ذہن و دل میں اتارنے کے لیے۔ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے ہر لفظ کے نظروں سے گذرنے پر انکا سر اوپر سے نیچے ہاں کے انداز میں ہلتا چلا جاتا۔
پھر اگلے دس سیکنڈ میں سرخوشی کی مسکراہٹ ٹھوڑی سے بانچھوں تک پھیلتی چلی جاتی، ایک انگڑائی کسی زلزلے کے طرح انکے تن بدن میں داخل ہوتی، جس کا مرکز ہزاروں میل دور بھارت کے کسی شہر میں ہوتا، اور انکے بازو فضا میں اٹھ جاتے، اور سر اٹھا کر چھت کو دیکھنے لگتے، چھت کی بجائے مگر آنکھیں کہیں اور فوکس ہوتیں۔ ایسے لمحے میں کیبن کی دیوار سے نکلے ہمارے سر دیکھ کر کبھی شرمندگی اور کبھی واقعی والے غصے میں یوپی کے شرفاء اور حیدرآبادی بدمعاشوں والی گالیاں مکس کر کے دیتے۔
وہ پانچ دن دلبر بھائی کے لیے بالی ووڈ بھرے دن تھے۔ وہ ایسے کہ کبھی دیوآنند کی فلموں کے گیت گنگناتے تو کبھی دلیپ کمار اور دھرمیندرا کے ڈائیلاگ دہراتے۔ ہر جملے سے نہ جانے رومانس کیسے نکال لیتے۔ دلبر بھائی، یہ اسائنمنٹ تین دن میں کرنا ہے، میں کہتا۔ وہ اسی جملے کو رومانٹک انداز میں دہراتے، تین دن میں کرنا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ اسائن ۔ ۔ ۔ منٹ ۔ ۔ اور پھر معنی خیز مسکراتے۔ ایک دو بار تو میں بھی بلش کر گیا۔ اور دوسرے کیبن کا حیدرآبادی لونڈا بغلوں میں خوشبودار پاؤڈر لگانا چھوڑ گیا کہ دلبر بھائی ایک دن اسکا بازو اٹھا کر بولے، بہت ۔ ۔ ۔ دھیمی ۔ ۔ بھینی ۔ ۔ ۔ اور بے چینی والی کھشبو ہے، کیا لگاتے ہو؟
ویک اینڈ آیا، دو دن دلبر بھائی اپنے گھر سے بھی چیٹ پر لگے رہے۔ سعودیہ میں جمعرات اور جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ جمعہ کی نماز کے بعد دلبر بھائی میرے ساتھ بریانی کھایا کرتے اور لانگ ڈرائیو پر مکیش کے گانے لگا کر جھومتے، رمیا وتا ویا لگتا تو خوشی سے لہک اٹھتے اور دوست دوست نہ رہا چلتا تو لمبے اداس ہوکے بھرتے۔ اس جمعہ پر بھی یہی کیا۔
ہفتے کو واپس کام پر پہنچا، مارننگ میٹنگ سپروائز کی دھمکیاں وقت پر کام کرنے والی سن کر اپنے کیبن میں پہنچا اور کمپیوٹر آن کیا تو سامنے ہی دلبر بھائی والی حسینہ کی گالیاں میری منتظر تھیں۔ کس گدھے الو کو میرے سر منڈھ دیا؟ میں نے سوچا تھا تم انسان کے بچے ہو تو وہ بھی انسان ہی ہوگا، مگر اس نے میرے ساتھ بہت برا کیا۔ آگے کچھ نہیں لکھا تھا۔ جواب کی امید تو نہیں تھی، تجربہ یہی کہتا تھا کہ جب شٹل چیلنجر کے انجن شعلہ پکڑ جائیں تو وہ خلا میں پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔
بےچینی سے دلبر بھائی کا انتظار کیا جو خلاف معمول زرا دیر سے آئے اور ہشاش بشاش اپنے کیبن میں چلے گئے۔ انکے چہرے پر چھایا سکون دیکھ کر مجھے رشک آیا۔ تیزی سے پہنچا اور پوچھا کہ انکا "آن چیٹ عشق کہاں پہنچا؟"۔ دلبر بھائی میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ اور الوہیانہ چمک انکے چہرے پر آگئی۔ بس ۔ ۔ ۔ بس اس ویک اینڈ میرا دل بدل گیا۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ ان سب کاموں میں کچھ نہیں رکھا۔ جمعے کا روز ہے، میں اسکو اپنی بہن بناتا ہوں۔ اور پھر سچ سچ بتا دیا کہ میری شادی ہو چکی ہے۔ اس لیے اب یہ بات چیت نہیں ہوسکتی۔ دلبر بھائی بات کر کے اپنے کمپیوٹر اسکرین کی طرف متوجہ ہونے لگے تو میں نے انکی ریوالونگ چئیر گھما کر اپنی جانب کرلی، پھر ؟ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے کیا کہا؟ ناراض ہوئی؟ گالیاں دیں؟ میں نے تیزی سے سوال کیے۔
دلبر بھائی کے چہرے پر حیرانی پھیلی، نفی میں سر ہلایا، نہیں تو ۔ ۔ ۔ پھر ایک صوفیانہ مسکراہٹ چہرے پر لا کر بولے، جب میں نے اسکو سب سچ بول دیا تو میرا من ہلکا ہو گیا ۔ ۔ اس نے بھی کہا کہ اس نے آج تک مجھ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں "عخیدت" کے آنسو آگئے تھے ۔ ۔ ۔ ایسا اس نے مجھے بتایا۔
میں ٹھنڈی سانس لے کر واپس اپنے کیبن میں آ بیٹھا۔ بیچاری انڈین حسینہ، ساجن کی تلاش میں سادھو سے جا ٹکرائی۔ میں نے دلبر بھائی کی کیبن کی دیوار کی جانب دیکھا، جہاں سے گنگنانے کی مدہم آواز آ رہی تھی، دوست دوست نہ رہا ۔ ۔ ۔ پیار پیار نہ رہا ۔ ۔ ۔ زندگی ! ۔ ۔ ۔ ہمیں تیرا ۔ ۔ ۔ اعتبار نہ رہا۔
(دلبر بھائی، عربستان کی یادیں ۔ انڈین حسینہ)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“