نزیر ناجی اپنے فقرے دنوں کا احوال لکھتے ہوئے اپنا اور منیر نیازی کا ایک واقعہ لکھتے ہیں (اور انکی ادبی ایمانداری کی داد دیتا ہوں) کہ منیر نیازی کی شاعری کا ایک مداح انکے "ہتھے" چڑھ گیا تو ان دونوں نے نہ صرف اس سے ایک اچھے ہوٹل میں کھانا کھایا، بلکہ باقاعدہ مشورے سے اس سے اپنے لیے سگریٹ پان وغیرہ کا بندوبست بھی کروایا۔
منیر نیازی اپنے وقت کے جغادری شاعر ہیں جو اپنے ہم عصروں کا گھاس بھی کم ہی ڈالتے تھے اور انکی اچھی شاعری کا میں خود بھی قائل ہوں۔ مگر انسانی سطح پر کیا پسماندہ سماج ادیب بھی پسماندہ درجے کے پیدا کرتا ہے؟ جو لفظوں کے جادوگر تو ہوتے ہیں مگر انسانی سطح پر جب افکار کی بلندی کا مرحلہ آتا ہے تو ایک عام انسان سے بھی نیچے گر جاتے ہیں۔
عطاء الحق قاسمی صاحب کی ایمبیسیڈری، پی ٹی وی کی چودھراہٹ اور دیگر سرکاری مراعات یقینا منیر نیازی کے پان سگریٹ، اور اس مولوی کی پلیٹ میں شوربے کے ساتھ تیر کر آتی "حرام" بوٹی سے کہیں زیادہ ہیں، جو ایسے لوگ اپنے لیے حلال قرار دے لیتے ہیں۔
میرا خیال ہر گذرتے دن کے ساتھ پختہ ہو رہا ہے کہ انسانی سماج بھی ماں کی کوکھ کی طرح ہوتا ہے، جس میں صحتمند "بچہ" تب ہی پروان چڑھ سکتا ہے، جب اس کوکھ کے ساتھ ساتھ پورا جسم توازن و صحت کا مجموعہ ہو۔ ورنہ چھوٹے سر والے بچے پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔