بریانی ایک آزمودہ ترقی بخش غذا ہے۔ یوں تو اس کے کئی فوائد ہیں، مگر ترقی و کامرانی نیز کنٹریکٹ کی حصولی میں اس کی افادیت مسلم ہے۔مسلسل سبزیوں کے استعمال سے ہونے والی بھک مری … مم … میرا مطلب ہے بھوک کے مرجانے کی شکایت میں اسے بے حد مفید پایا گیا ہے۔اس کی مہک سے ہی بھوک چمک اٹھتی ہے ۔بیگن کے بھُرتے کا نام سن کر مرجھائے چہرے بریانی کے ذکر سے ہی کھِل اٹھتے ہیں، بچوں اور بڑوں دونوں کے ناگواری میں سکڑے ہونٹ ایک دم سے پھیل کر تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ خشک ہونٹوں کی رطوبت زبان کی لپلپاہٹ سے بحال ہوتی ہے۔کنپٹیوں میں نیز تالو اور زبان کے نیچے موجود لعابِ دہن خارج کرنے والی گلٹیاں ایک دم سے فعال ہو کر حفظ ماتقدم کے طور پر تھوک کے حساب سے تھوک جمع کرتی جاتی ہیں جو تادمِ دیدارِ بریانی رال کی شکل میں باہر ٹپکنے کی بجائے حلق سے اتر کر غذائی نلی میں قیام پذیر اپنے افعالِ ہاضمہ کی ذمہ داریوں سے بہرآور ہونے کا منتظر رہتا ہے۔
بریانی کے اجزاء میں کاربوہائیڈریٹ کے پتلے لمبے سفید و زعفرانی دانوں اور پروٹین سے بھرپور ایمان افروز بڑے یا چھوٹے کی چھوٹی یا بڑی بوٹیوں کے علاوہ روغنیات بہت اہم ہیں جن کی چکنائی بڑے بڑوں کو پھِسلانے بلکہ پھُسلانے کے کام آتی ہے اور یوں کئی چھوٹے بڑے کام نکالے جاتے ہیں جن میں پروموشن سے لے کر پسندیدہ جائے ملازمت پر تبادلہ نیز چھوٹے موٹے کنٹریکٹس کی حصولی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ رشتے بنانے کے ساتھ ساتھ ”رستے بنانے“ میں بھی بےحد مفید پائی گئی ہے جس سے شارٹ کٹ کے ذریعہ ترقی و کامرانی کی اونچی منزلوں تک بآسانی پہنچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
قدیم ہندوستان کی ایک متروک کہاوت ہے کہ شوہر کے دل تک پہنچنے کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔(آج کل کی بیشتر بیویوں کو شوہر کے دل سے زیادہ اس کی جیب تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے۔بہ لفظِ دیگر انہیں شوہر کے دل سے زیادہ اپنے بِل کی پروا ہوتی ہےجو بہر صورت بیچارے کے دل پر ہی اثر انداز ہوتا ہے!)اب اس کہاوت کا اطلاق شوہر سے زیادہ اس کے باس پر ہوتا ہے۔
خوبصورت بیویوں کے عقل مند شوہراپنے باس کو خوش کرنے کے لئے گھر کی بجائے کسی ہوٹل میں بریانی کھلانا پسند کرتے ہیں تا کہ باس اپنے تعریفی کلمات صرف بریانی تک ہی محدود رکھے۔ بصورتِ دیگر وہ ساری زندگی سَر دھنتے رہ جائیں گے کہ ہار کر جیتنے والوں کو تو بازیگر کہتے ہیں مگر جیت کر ہارنے والوں کو کیا کہتے ہیں۔
بریانی کا ایک قریبی رشتے دار پلاؤ بھی ہے جس کے اجزائے ترکیبی اور ترکیبِ نوشی قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ مگر بعض لوگ دونوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور دونوں کو ایک ہی نام ”بریانی پلاؤ“ یا ”پلاؤ بریانی“ دے کر صرف کھانے سے مطلب رکھتے ہیں۔ ان کے لئے دونوں کے درمیان فرق کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی مسلم کش فسادات کے دوران شیعہ اور سنی ، یا پھر دیوبندی اور بریلوی میں فرق کی۔ اپنے اس ”اجتماعی“ نام کے ساتھ یہ پکوان چوتھی اور چہارم دونوں موقعوں پر نوش کئے جانے کے سبب خوشی اور غم سے مبرّا ہو کر ہر قسم کے تعصب سے پاک ایک غیر جانبدار ڈش بن چکی ہے، اور یوں منگنی اور مَرنی دونوں موقعوں پر کھلائی جاتی ہے۔
جس طرح دوا کے کارگر ہونے کے لئے اسے ڈاکٹر کے لکھے نسخے کے مطابق ٹھیک وقت پر لینا ضروری ہوتا ہے اسی طرح بریانی سے بھرپور نفع کشید کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے استعمال کے درست وقت کا تعین کیا جائے۔اور یہ کوئی مشکل امر بھی نہیں کیوں کہ سال میں ایسے مواقع کئی بار آتے ہیں۔ مثلاً اپنی یا بیگم کی سالگرہ یا پھر اپنی شادی کی سالگرہ مناسب و موزوں ترین مواقع ہوتے ہیں بریانی کے منافع بخش استعمال کی۔ اگر یہ مواقع استعمال ہو چکے ہوں اور اسی سال مزید بریا نی ڈپلومیسی کی ضرورت پیش آئے تو بیٹے یا بیٹی کی سالگرہ کا بھی بلا جھجھک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ آپشن بھی ختم کر چکے ہوں تو پھر بیٹے کے ختنے کی سالگرہ منانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ لوگوں کو بریانی سے مطلب ہوتا ہے، ”مسلمانی“ سے نہیں۔ البتہ اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ بیٹے کی عمر اتنی ہو کہ اپنے ”ختنۂ ثانی“ کے نام سے اسے اب بھی ہیبت ہوتی ہو نیز ماں اور باپ دونوں کی شادی کی سالگرہ ”اتفاق“ سے ایک ہی دن ہونے پر حیرت ہوتی ہو۔ بصورتِ دیگر، اسے کسی بہانے پارٹی سے دوراپنے دوستوں کے ساتھ کہیں اور بھیج دیں چہ جائیکہ کوئی موڈرن عورت بھری محفل میں مصافحہ کرتے وقت پوچھ لے: ”سالگرہ مبارک ہو۔کیسا محسوس کرتے ہیں آپ ان لمحوں کو یاد کر کے؟“ یا با آواز بلند کہہ دے: ”ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے بیس سال قبل کے اس تکلیف دہ تجربے سے متعلق اپنے تاثرات سے ہمیں نوازیں۔“
بریانی کی بات چلے اور حیدرآباد کا ذ کر نہ ہو بھلا کیسے ممکن ہے؟ حیدرآباد کی شناخت پہلے کبھی چار مینار رہی ہو، مگر اب تو یہ شہر بریانی اور حلیم کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔گزشتہ سال میں نے اپنے ایک حیدرآبادی دوست کو کلکتے میں بریانی کھلانے کی ہمت کر ڈالی۔ ”ہمت“ اس لئے کہ کسی حیدرآبادی کو کہیں اور کی بریانی کھلانے کی دعوت دینا ایسے ہی ہے جیسےآپ نے اپنے آٹھ سالہ بچے کی گیند بازی پر محمد اظہر الدین کو بلّے بازی کا چیلنج دیا ہو۔ ویٹر کے جاتے ہی میرے ساتھی نے چاول اٹھانے کی غرض سے جو چمچہ بریانی میں داخل کیا تو اس طرح ٹھٹھک کر جم گئے جیسے کسی قدیم سرزمین پر کھدائی کے دوران آثارِ قدیمہ کے کسی مزدور کی کلہاڑی مٹی میں دبے اشرفیوں سے بھرے کسی دھات کے گھڑے سے ٹکرا گئی ہو۔میں حیرانی و تذبذب کے عالم میں کبھی انہیں دیکھ رہا تھا اور کبھی بریانی سے بھرے پلیٹ کو جہاں مجھے نہ تو کوئی مری ہوئی مکھی نظر آئی اور نہ ہی کاکروچ۔دوسرے ہی لمحے انہوں نے بہت سنبھلتے ہوئے بےحد آہستگی سے چمچے کو سیدھے اوپر اٹھایا جس پر آلو کا ایک بڑا سا ٹکڑا ڈگمگا رہا تھا۔ ان کی پھیلی ہوئی آنکھیں اس طرح اسے گھور رہی تھیں گویا انہوں نے چالیس ہزار سال قدیم کسی انسان کی کھوپڑی سنبھال رکھی ہو۔اس سے قبل کہ میں انہیں کلکتے کی ”آلودہ“ بریانی کا تعارف کراتا، انہو ں نے بائیں ہاتھ سے اپنی پتلون کی جیب سے موبائل نکالا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے کئی زاویوں سے اس کھوپڑی … معاف کیجئے گا … چمچے پر مقیم آلو کی کئی تصویریں لے ڈالیں۔ میرے یہ بتانے کے باوجود کہ یہ ”آلودگی“ کلکتے کے علاوہ بہار اور یوپی سے ہوتے ہوئے دارالسلطنت دہلی تک پھیل چکی ہے، انہوں نے بِل آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔
یوں تو بریانی کا نام سنتے ہی پردۂ تصور پر منگنی، شادی اور دیگر پُر مسرت تقریبات کے مناظراُبھرتے ہیں لیکن اگر بریانی کے ساتھ ”پیکٹ“ کا لاحقہ جڑ جائے تو بےاختیار سرکاری و نیم سرکاری فنڈ سے منعقدہ سیمینار، سمپوزیم، مشاعرہ اور رسمِ اجراء جیسی تقریبات کا تصور ذہن میں آنا بالکل فطری سا ہو گیا ہے۔یہ بریانی کے پیکٹس ہی ہیں جن کی بدولت سامعین کو طویل اور خشک مقالات اخیر تک برداشت کرنے کی قوت حاصل ہوتی ہے، مزاج میں صبر و تحمل کا مادہ پیدا ہو تا ہے نیز پہلو بدلنے اور جمائیاں لینے کے باوجود ویلی ڈکٹری سیشن تک اپنی سیٹ پر جمے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس طرح بریانی کے یہ پیکٹس”سُرعتِ انخلاء“ پر قابو پا کر ”ٹھہراؤ کی مدت“ میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب نجی خرچے سے چھپی کتابوں کی نجی اخراجات سے منعقدہ تقریبِ رسمِ رونمائی میں بھی بریانی کے پیکٹس ”وجہِ بھیڑ لگائی“ کے بطور لازمی ہوتے جا رہے ہیں بصورتِ دیگر مسند نشینوں کی تعداد سامعین کی تعداد سے بڑھ جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتاہے اور جلسہ گاہ میں تِل رکھنے کی جگہ تو دور، تل کا پہاڑ بھی رکھ دیا جائے تو بیٹھنے کی کافی جگہ بچ جاتی ہے۔ویسے بھی کچھ لوگوں میں سامعین سے زیادہ مسند نشین ہونے کی للک ہوتی ہے جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ حالانکہ مہمانِ خصوصی اسے بنایا جاتا ہے جس سے مستقبل قریب میں کوئی خصوصی کام لینا ہوتا ہے۔ مہمانِ ذی وقار کی کرسی اسے دی جاتی ہے جسے الیکشن ہارنے یا کسی اسکینڈل میں پھنسنے کے بعد کھویا وقار بحال کرنے کی فکر ہوتی ہے جس کے لئے وہ تھوک کے حساب سے کتاب کی کاپیاں خرید کر شہر کی لائبریریوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔صرف مہمانِ اعزازی کی کرسی ہی Out-sourcing کے لئے بچی رہتی ہے۔ایک صاحب نے جب تمام شرکاء کے لئے چائے بسکٹ کاانتظام کرنے کے عوض یہ سیٹ مانگی تو منتظمین نے یہ کہہ کر انہیں مایوس کر دیا کہ چائے بسکٹ میں تو صرف نعت یا حمد سے جلسے کا آغاز کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ طوعاً کرہاً انہوں نے تمام بشمول سامعین کے لئے بریانی کے پیکٹس کا انتظام کرنے کی پیش کش کی تو منتظمین نے یہ کہہ کر ان کی آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا کہ مہمانِ اعزازی کا سیٹ تو کب کا بُک ہو چکا، اب جو بھی ہوگا مہمانِ ”اضافی“ہوگا !
ہمارے درمیان کچھ خصوصی ادب نواز بھی ہوتے ہیں جو ہر اس تقریبِ رسمِ رونمائی میں لازماً شریک ہوتے ہیں جہاں یا تو کتابیں مفت بٹنے والی ہوتی ہوں یا کم از کم بریانی کے پیکٹس۔ اگر دہری مایوسی کا شک بھی ہو جائے تو ”تضیعِ اوقات“ سے کوسوں دور رہتے ہیں۔اور اگر دونوں ہاتھوں میں لڈّو کے امکانات ہوں تو بڑے اہتمام سے جیب میں پولی بیگ لئے سامعین کی صفِ اوّل میں جا بیٹھتے ہیں۔تعزیتی جلسوں میں سامعین کی گھٹتی تعداد کے پیش نظر اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ مرحوم کے اعزّہ اپنی توجہ صرف مدرسے کے یتیم بچوں تک ہی محدود نہ رکھیں۔
بریانی کی مذکورہ اجتماعی افادیت کے علاوہ انفرادی اہمیت بھی ہے۔ کوئی بھی مصنف یا شاعر چاہے”بصد خلوص و عقیدت، برائے مطالعہ و تبصرہ“ کسی کو اپنی کتاب جھک کر دونوں ہاتھوں سے دیتے وقت وصول کنندہ کی آنکھوں میں جتنی بھی لجاجت سے کیوں نہ دیکھے ، مقابل ”ان شاء اللہ، ضرور“ کہہ کر تنقید و تبصرے کی ذمہ داری مکمل طور سے اللہ پر چھوڑتے ہوئے خود کو ہرقسم کی اخلاقی ذمہ داری سے بری کر لیتا ہے۔لیکن اگر بریانی کی دعوت کے وقت اپنی کتاب پیش کرتے وقت تحریری اظہارِ خیال کی خواہش ظاہر کرے تو کوئی کم ظرف یا ”بریان فراموش“ ہی ہوگا جو طویل مضمون نہیں تو مختصر تبصرہ بھی نہ لکھے۔
لڑکی دیکھنے آنے والوں کےلئے بھی لڑکی والے لڑکی سے زیادہ ناشتے اور بریانی پر محنت و توجہ صرف کرنے کے قائل ہوتے ہیں تا کہ صورت، سیرت، تربیت و صلاحیت میں کسی قسم کی کمی کو بریانی سے پورا کیا جا سکے۔
الغرض، زندگی کے ہر شعبے میں بریانی کے استعمال سے بہتیرے چھوٹے بڑے کام نکالے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ میں نے کبھی کسی سے کوئی کام نکالنے کے لئے بریانی کھلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیوں کہ … میں سارے کام صرف اپنے تعلقات اور مراسم کی بنیاد پر ہی نکال لینے کی اہلیت رکھتا ہوں۔اب یہ نہ پوچھیں میں نے اتنے گہرے تعلقات اور مراسم بنائے کیسے۔(ظاہر ہے کثرتِ دعوتِ فروغِ تعلقات ہی کی بنا پر!)