عشق بھلایا سجدہ تراميم
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہن کی کرناٸیں شور پکار
بلھے شاہ کا اصل نام عبداللہ سلسلہ نسب چودھویں پشت سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ملتا ہے،بچپن مویشی چراتے گزرا والد امام مسجد تھے درسی تعلیم اطمینان قلب کا باعث نہ بنی اور شاہ عنایت کے دست شفقت پر بیعت کر لی جو اراٸیں ذات سے تعلق رکھتے تھے ،ان کی برادری کے لیۓ نا قابل قبول تھا کہ سید اراٸیں کے سامنے زانوۓ تلمذ تہہ کرۓ ،بلھے شاہ نے نسلی تفاخر کو ٹھکرایا اورشیخ عنایت قادری کو اپنایا جو صوفیانہ مساٸل پر گہری نظر رکھتے تھے
بلھے نوں سمجھاون آیاں بہناں تے بھرجاٸیاں
آل نبی اولاد علی دی توں
کیوں لیکاں لاٸیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا چھوڑ دے پلہ راٸیاں
جیھڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملے سزاٸیاں پاٸیاں
جیھڑا سانوں راٸیں آکے بہشیتیں پنیگاں
آپ نے گدھے پالے جو اس زمانے میں نچلا ترین کام تھا ہیجڑوں کے ساتھ گھل مل جاتے چوراہوں پر ان کے ساتھ ناچتے
دراصل اٹھارویں صدی برصغیر کا پر آشوب دور تھااس عہد نےنادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی تباہ کاریاں دیکھیں دلی کو اجڑتا ہوا دیکھا پھر اورنگ زیب کا دور دیکھا جس کی وضاحت کے لیۓ ابن انشا۶ کا ایک فقرہ ہی کافی ہے”وہ دین ودنیادونوں پر نظر رکھتا تھا نہ اس نے نماز چھوڑی اور نہ کسی بھاٸ کو چھوڑا“ مذہبی جنونیت اور انتشار کے خلاف میں ادبی و فکری سطح پر شدید ردعمل ہواپنجاب میں بلھے شاہ(1757-1680) وارث شاہ(1798-1722)سندھ میں شاہ لطیف(1752-1689) سچل سر مست (1826-1739) پشتو میں رحمٰن بابا(1711-1653)إردو میں میر درد اور میر تقی میر نے عظیم فکری جدت کی داغ بیل ڈالی مگر جو شہرت بلھے شاہ کی شاعری کو ملی وہ اپنی مثال آپ ہے
چٹی چادر لا سٹ کڑیۓ پہن فقیراں لوٸ
چٹی چادر داغ لگیسی ،لوٸ داغ نہ کوٸ
بلھے شاہ سے قبل بھی شعرا نے مذہبی پیشواوں کی چیرہ دستیوں کو ہدف تنقید بنایا مگر جس بہادری سے سے بلھے شاہ نے حالات کا مقابلہ کیا وہ بے مثال ہے
ترے عشق نے ڈیرا میرے اند کیتا
بھر کے زہر دا پیالہ میں تاں آپے پیتا
جھب رے بویڑیں وے طبیبا نہیں تے میں مر گیٸا
ترے عشق نچایاٸیاں کر کے تھیا تھیا
ایک جگہ کہتے ہیں
تخت ہزارے لے چل بلھیا ،سیالیں ملے نہ ڈھوٸ
رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوٸ
بھٹھ نمازاں ،چکڑ روزے ،کلمے پھرے سیاہی
بلھے شاہ شوہ اندروں ملیا بھلی پھرے لوکاٸ
1757 بلھے شاہ کی موت کے وقت ان کی انقلابی سوچ نے انھیں برادری کے قبرستان میں دفن کے لیے جگہ بھی نہ لینے دی اور جنازہ پڑھانے والے پر بھی کفر کے فتوٰی لگے یوں ان کے نیچ ذات کے دوستوں نے انھیں قبر میں اتارا اور جنازہ بھی پڑھایا
علموں پیۓ قضیے ہور
اکھیں والے انھی کور
پھر لیۓ ساہ تے چھڈے چور
دوہیں جہانہیں ہویا
علموں بس کریں اور یار
نہ کر بندیا مری تری نہ میری نہ ترین
چار دناں دا ملہ دنیا فیر مٹی دی ڈھیری
مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے ڈھا دے جو کجھ ڈھینڈا
اک بندہ دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
ماخذات ازعاٸشہ ذوالفقار Baagi tv .com