کاٸنات میں ہر جگہ بقا کی جنگ جاری ہے جو بہترین ہوگا وہی طویل عرصہ وساٸل سے لطف اندوز ہو پاۓ گا،عدالتوں کے باہر لگے ترازو کے نشان کا غیر متوازن پلڑا بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔کہ معاشرہ ایک پلڑے میں طاقت کو رکھتا ہے اور دوسرے میں محبت۔بڑی چاہت سے کمہار نے مٹی کا پتلا بنایا ،نین نقش سنوارےہر طرح سے ٹھونک بجا کر دیکھا مگر عجب سی کمی محسوس ہوٸ کافی سوچ بچار کے بعد ننھی سی لو روشن کر پتلے کے جسم میں چھپا دی ،جب آدم نے اسی حرارت کی تپش میں متجسس ہوکر گندم چکھی تو زمین پر اپنا مقدر خود تلاش کرنا سزا ٹھہرا
،فیض اسی لو کی تپش سے سلگتے ہوۓ جب کہتے ہیں اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
تو معیشت بھی دبے پاٶں چلی آٸ کیونکہ طاقت مضبوط معیشت کی مرہون منت ہے چاہے جب آدم کی روٹی پوری ہوٸ تو اسے حوا کی صورت نظر آنا شروع ہوگٸ اور نٸ فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا جوآخری انسانی زندگی تک جاری رہے گا،جنگل کی زندگی سے شرع ہونے والی فتوحات بیل گاڑی سے جہاز تک جا پہنچی اور فضا سے زمین کو دیکھنے کا منفرد تجربہ کیا،ترازو کا پلڑا نت نٸ ایجادت آٸیں تو توازن مزید غیر مستحکم ہوتا چلا گیا اور اشتہاٶں کی اقسام پیچیدہ تر ہوتی گٸ،سجے سجاۓ مکانوں کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لیۓنۓ رشتے بناۓ جانے لگے مگر ان رشتوں میں بھی ”بہترین کو بقا“ کا اصول لاگو رہا ہے ،محض قبول صورت ہونا جرم ٹھہرا اور گھر گھر جا کر گوشت پوست کے جذبوں سے بھرے پتلوں کو کبھی” چلا“ کر اور کبھی ہاتھوں میں ”چاۓکی ٹرے“ پکڑا کر منتخب کرنا باعث فخر ٹھہرا اور ان جسموں کی تجارت کو محبت کا نام دیا گیا ،جب کسی ایک سے تناٶ پیدا ہوا تو ”چار“کی اجازت کہہ کر مزید محبتیں استوار کی گٸیں ،چار کی اجازت جس صورت میں تھی وہ بیوہ،طلاق یافتہ یا لونڈیوں کو عزت کا مقام دینے کے لیۓ تھا اور ساتھ ہے معیشت کے توازن کو شرط رکھا گیا مگر
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
محض ہوس رہ گٸ اورعورت کے نزدیک عمدہ طرز زندگی مرد کو پرکھنے کا ذریعہ ٹھہری اور اس تلاش کی معراج شان وشوکت سے شادی نما دکھاوا ٹھہرا ،ترقی کے اس جدید دور میں اگر سب کچھ حاصل کر لینا ہی کامیابی ہے تو پھر مزید تلاش کیوں جاری ہے،زندگی میں اچھی طرز رہاٸش اور حسین ساتھ نصیب ہو تو پھر خوشی خوشی وقت گزرنا بہتر عمل ہےکیونکہ ”جو میسر ہے وہی خاص ہے“مگر ایساہوتا نہیں،محبت یا عشق کا تجربہ کرنا ہر کس وناکس کی خواہش ہوتی ہےخوب سے خوبتر کی خواہش بے چین کیۓ رہتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کی صورت ہمیں کبھی کچرا گھروں میں ادھ نوچی ننھی لاشوں کی شکل میں ملتی ہے یا کسی کی دریا برد میت ، دراصل محبت کا کھیل مڈل کلاس کے لیۓ ہوتا ہی نہیں ،اس رسک کھیل میں ہاٸ کلاس یا غریب حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ دونوں کے پاس ”کھونے اور پانے“ کو بہت کچھ ہوتا ہےاگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں ہیر رانجھا ،سسی پنوں،سوہنی مہنیوال محض چند ہی کیوں ہوتے کیونکہ عام انسان تو ”رشتہ داروں کے طعنے“ اور کبھی”اخراجات“ کی بھرمار کی مار ہی سہتے سہتے دنیا سے پردہ کر لیتا ہے ،زندگی میں سب کچھ مکمل نہیں ملتا مگر یہ سمجھنے کو ہم تیار نہیں ادھوری خوشی اور پورے غم سے لطف اندز ہونا بھی اب خواب بن چکا ہے اور آساٸشات کی بھرمار بھی چاہیں ساتھ محبت کے تڑکے کی خواہش بھی بے چین کیۓ رکھتی ہے ۔ زندگی کی آسانی کو بناۓ جانے والے اصول جہاں مذہب چناو کا حق دیتا ہے محض مرد کی پسند ٹھہرا اور ہمارے پیارے رسول مُحَمَّد ﷺ جب اپنے سے پندرہ سال بڑی بیوہ سے جو پہلے شوہر کے بچوں کی ماں تھیں عقد کرکے تمام عمر انھیں یاد کرتے رہے ،ہم اپنی بیٹی کی عمر کی شریک حیات کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں