ہر انسان کی الگ سے خوشبو ہوتی ہے جسے عام الفاظ میں ہم پسینہ کہتے ہیں ایسے ہی ہر موسم کی بھی اپنی خوشبو ہوتی ہے گرمی ہو یا سردی زمین سے الگ مہک اٹھتی ہے ایسے ہی ہر علاقہ کی بھی اپنی مہک ہوتی ہے اگر کوئی اجنبی کسی نئے شہر بس سے ٹرین سے اترتاہے تو یہ مہک اسے خوش آمیدید کہتی ہے تو وہ شہر اچھا لگنے لگتا ہے اگر شہر میں چلتی ہواٶں میں اس اجنبی کے لیۓ نا پسندیدگی شامل ہو تو وہ جگہ اچھی نہی لگتی دوسرے الفاظ میں ”جسے دانہ پانی لکھا ہو“ کہتے ہیں ایسے ہی ہر گھر کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے جہاں بچپن گزرا ہو وہاں کی یاد آتے ہی الگ سی مہک ذہین میں آبستی ہے اور کچھ گھروں میں عجیب سی خوشی کی فضا درون خانہ چلتی رہتی ہے اورایک سکون کی کیفیت رہتی ہے مگر کچھ جگہیں بدنصیبی چھپاے رہتی ہیں اور ویران کھنڈر کا سا منظر پیش کرتی ہیں ایسے گھروں کی حالت شاٸد ان کے تعمیر کرنے والوں کی رخصتی کے بعد خراب ہوتی ہے
وہ نیک لوگ ہوتے ہیں مگر آنے والے اس اثاثہ کی دیکھ بھال اچھی طرح نہیں کر سکتے اور گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں پرانے گھروں کے صحن بھی عجیب پراسراریت چھپاۓ ہوتے ہیں بڑے بڑے صحن اور ساتھ بر آمدے گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں خاموش کھڑے نجانے کس کو کو یاد کرتے رہتے ہیں شاٸد اپنے پرانے باسیوں کو یا ان پردیسیوں کو جو برسوں پہلے رزق کی تلاش میں پردیس سدھار ے اور پھر وہیں کے ہو رہے ،اداسی کی خاموش پکار سب کو کہاں سمجھ آتی ہے اسی لیۓ ایسے مقامات سے اجتناب شروع ہو جاتا ہے اور یہ مقامات مزید تنہا ہو جاتےہیں نہ کوٸ ان کی خوشبو سونگھنے والا نہ ان کی زبان جاننے والا