زمانہ قدیم سے شاعری حسن وعشق کا بیان سمجھی جاتی رہی ہے، شعرانے عورت کے سراپا اور مخصوص جذبات کے اظہار کو ہی شاعری گردانا مگر عورت کے جذبات کی ترجمانی کی مردانہ کوشش مخصوص عرصہ تک ہی کامیابی حاصل کر سکی اور اظہار کا یہ طریقہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا یوں ادبی اصناف یک طرفہ ٹریفک کی طرح زندگی کی پٹڑی پر رینگتی رہی مگر قدیم زمانہ میں بھی کچھ ایسے صاحب نظر گزرے ہیں جو دنیا کے رنگوں کی حقیقت کو پرکھنے کی اہلیت رکھتے تھے ،ان میں ایک نام شاہ عبداللطیف بھٹائی کا بھی ہے۔
بھٹ شاہ جہاں عظیم صوفی شاعر ابدی نیند رہا ہے کلہوڑا دور میں 1689ء پیدا ہوے اور راٸج فارسی سے بغاوت کرتے ہوۓ مقامی زبان سندھی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کا منظوم کلام 30 ابواب پر مشتمل ہے ،ان ابواب کو ”شاہ جوسر“کہا جاتا ہے،ان کا کلام ان کے فقرا۶ کو زبانی یاد تھا ان میں ہاشم فقیر،بلال فقیر،تیمر فقیر معروف ہیں۔تیمر فقیر نے شاہ کے افکار و اشعار قلمبند کیۓ اور انھیں ”گنج شاہ لطیف “ کا نام دیا، آپ کی خادمہ ”ماٸ نعمت “ نے بھی اس کام میں معاونت کی یہ نسخہ بھٹ شاہ میوزیم میں محفوظ ہے،جس کا انگریزی ترجمہ آٸی آٸی قاضی کی جرمن اہلیہ ایلیہ قاضی نے نے کیا ،اس کا قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے شاہ نےمرد کی بجاۓ عورتوں کو اپنے کلام کا حصہ بنایا اور ایسے انوکھے رنگ عطا کیۓ جن سے آج بھی صدیاں گزرنے کے بعد دنیاناواقف ہی ہے۔ شاہ لطیف اور عورت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے وہ دنیا کے پہلے feminist شاعر کہے جا سکتے ہیں جس نے شاعری کے سات سر سندھ کی سات عورتوں سے وابستہ کیۓ اور سسی،مومل،سوہنی،نوری،ماروی کی کہانیوں کو لفظوں کی شکل دے کر امر کر دیا ہے ،اپنی شاعری میں عشق ،وطن سے محبت ،نیک مقاصد کے حصول کے لیۓ مر مٹنے کے قصے سموۓ،جب عورت کو معمہ کہا گیا تو لطیف نے عورت کو ”محبت“ کہا جب عورت کو گوشت کا لوتھڑا کہا گیا تو شاہ نے عورت کو حساس انسان قرار دیا جب خوبصورت معشوق کہا گیا تو لطیف نے عورت کو عشق کا ایسا تسلسل قرار دیا جو عمر بھر ساتھ چلتا ہے وہ سسی کی زبان میں کہتے ہیں
”ڈھونڈوں یار نہیل کو
تنہا اب کی بار
تیز نکیلے پتھر ہیں اور
دشت بھی ہے دشوار
میں انجان ہوں یار
تیرا درد بنا ہے رہبر“
جب عشق کی بات کرتے ہیں تو سوہنی کے
کردار کو بلند مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں
”سب میں ایک ہی پریتم ہے
سب میں وہی حضور
ہر اک میں ہے منصور
کس کس کو سولی دے گا “
سمجی روایات کے برعکس سوہنی کے لیۓ کہتے ہیں
”سوہنی اس ساجن بن
ساری نا پاک
تجھ کہ دھو کر اجلا کر دے
جا اس کے اوطاق
سندھی ڈیلٹا میں رہنے والی عورتیں تعلیم سے
سے نابلد ہونے کے باوجود لطیف کے اشعار غم اور خوشی کی کیفیت میں گنگناتی ہیں،
شاہ روایات یا رشتوں کی بجاۓجذبوں کا ساتھ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں”عورت جتنی زیادہ باشعور ہوگی دکھ اور تکالیف بھی بڑھتے جاٸیں گے“
کہتے ہیں
”جس کا اندر ٹوٹا ہو گا پہاڑوں کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی وہی کرۓ گی“
ایک جگہ کہتے ہیں
”جن کا عشق اٹل ہے
وہ تو گھڑے بنا ہی تیریں
وہ لہروں پر ٹہلیں
جن کے من میں پریت بسی ہو“
لطیف نے عورت اور عشق کو ایک ہی لڑی میں پرویا ہے
”عورت ایک مسلہ نہیں محبت ہے
مرد کے لیۓ جسم محبت ہے
عورت کے لیۓ جذبہ“
انھیں معلوم تھا عورت عاشق ہے وہ عورت کو عشق کی استاد مانتے سب سوچتے رہے عورت چاہتی کیاہے تخت ،بخت،اور جسم سخت
اسے معلوم تھا” عورت کو نرم و نازک گرم و گداز جسم سے ماورا محبت چاہیے
جنس سے آزاد،مرد جسم کے جنگل میں بھٹکتا رہتا ہے جبکہ عورت روح کے چمن میں
اڑتی تتلی ہے جو پیار کی پیاسی ہے“
وہ جانتے تھے
”عورت کا وجود سمندر ہے ،آنکھوں
سے بہتے اشکوں جیسا سمندر جو
نمکین بھی ہے اور حسین بھی
جس میں تلاطم ہے غم ہے جس میں رنج
نہیں صرف اور صرف الم ہے “
ماخذات از سندھی عورت اور شاہ لطیف
زبیدہ بروانی۔ہم سب
وادی مہران ،جنگ ۔کام ۔پی کے