عشق زبان زد عام سی اصطلاع ہے مگر معنی سے کم ہی واقفیت ہے، ”خود کو گم کرنا “ اپنی ہستی فنا کر دینا عشق ہے، عشق کے پانچ درجات سمجھے جاتے ہیں مگر سب کی انتہا ہستی کا مٹانا ہی مقصد ہے، عشق مردانہ کام سمجھا جاتا ہے مگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جاۓ تو بہت سی خواتین بھی اس کارزار میں قدم رکھ کر میدان مار چکی ہیں مگر تاریخ کے پنوں میں انھیں قابل ذکر مقام نہیں حاصل ہوا، حضرت بی بی حاجرہ علیہ اسلام جب صفا ومروہ کے پہاڑوں میں ننھے سے بچہ کے ساتھ کالے پہاڑوں کے درمیان اکیلی کھڑی تھیں تو یہ عشق ہی تھا جس نے جنگل بیابان میں بغیر کسی انسانی سہارا کے زندگی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا،رب تعالی کو یہ ہمت پسند آئی اور صدیاں گزر گئییں آج بھی بھی چشمہ زمزم جاری ہے ،حضرت زینب علیہ اسلام جب اپنے سارے خاندان کے سر کٹوا کر یزید کے جاہ وحشم کا مقابلہ کرنے کے لیۓ کھڑی ہوئییں تو کوئی انسان سہارا ارد گرد موجودنہیں تھا مگر اکیلی خاتون نے عشق کا حق ادا کیا اور تمام مظالم کا جوانمردی سے مقابلہ کیا مگر آج بھی بی بی زینب علیہ اسلام کی جرات کو ویسا خراج عقیدت پیش نہی کیا گیا جیسا ان کا حق تھا، عشق کسی مسلم یا غیر مسلم کا پیشہ نہیں یہ تو مشکل حالات میں استقامت سےمقابلہ کرنے والے کردار ہیں اور ہندو دھرم میں سیتا بھی ایسا ہی نام ہے جو اپنے مجازی خدا کو دیس نکالا ملنے پر ساتھ چوڑنے پر راضی نہ ہوئی اور چودہ سال جنگلوں کی خاک چھانتی رہی مشکلات جھیلتی رہی اور ایک وقت ایسا آیا جب سیتا کواسی مجازی خدا پر اپنے کردار کی پاکیزگی ثابت کرنا پڑی جس کے لیۓ آگ کا الاؤ روشن کیا گیا اور سیتا نے جلتے کوئیلوں پر چل کر اپنی پاکیزگی کا ثبوت دیا اور مختلف علاقوں میں آج بھی بے گناہی کا ثبوت دینے کے لیۓ جلتے کوئیلوں کے الاؤ پر چلانے کی رسم موجود ہے ،تیزاب گردی اسی رسم کی جدت کہی جا سکتی ہے ،ایک اور جرات مند خاتون جو اسی صدی کی باسی تھیں ،ڈاکڑ رتھ فاؤ جذام جیسے موذی مرض سے لڑنے اور شکست دینے والی رتھ فاؤ جو جرمن تھیں اور انڈیا و پاکستان کے ان مریضوں میں جینے کی امنگ پیدا کرتی رہیں جن سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر ڈاکڑ رتھ نے انسانی تکلیف کو دور کرنے کے لیۓ اپنی زندگی وقف کی اور بالآخر کامیاب ٹھہریں مگر ان کی جرات ،حوصلہ اور لگن کو وہ جائیز مقام حاصل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
دنیا کی تاریخ کا جائیزہ لیا جاۓ تو بڑے بڑے ادیان ان خواتین کی ہمت کی بدولت رہتی دنیا تک امر رہیں گے ،عموماً کہا جاتا ہے عورت اندھیرے ،تنہائی،حشرات الارض اور زخموں سے رستا خون دیکھ کر ڈر جاتی ہے مگر صدیوں پہلے بی بی حاجرہ علیہ اسلام کو بے آب وگیاہ ویرانہ نہ ڈرا سکا جبکہ آج کے جدید سائینسی اور تیز ترین زمانے میں بھی خاتون کے اکیلے سفر کرنے پر پابندی ہے ،وہ کون سا توکل تھا جس نے بی بی حاجرہ علیہ اسلام کو رہتی دنیا تک امر کر دیا ،آج کے جدید زمانے میں حق بات کے لیۓ آواز اٹھانے والے کو آوٹ کر دیا جاتا ہے اور صدیوں پہلے جب بادشاہ وقت کے شاہانہ دربار میں تلواروں کے سایہ میں اپنے پیاروں کے کٹے ہوۓ سروں سے بہتا خون دیکھ کر بھی نہ ڈرنے والی خاتون آواز بلند کر کے خطبہ دیتی ہیں تو وہ کون سا توکل ہے جو جرات اور بہادری عطا کرتا ہے ،حق اور باطل کے اس معرکہ کے فتح میں بی بی زینب علیہ اسلام کا جو کردار ہے وہ عشق حقیقی کی عمدہ ترین مثال ہے، ہندو مذہب میں عورت کو ”ماں“ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسی تصور کے تحت ہمارے ہاں بھی عورت محض ایک ”ماں“ ہی ہے اس کے علاوہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ اسی ”ماں“ کو جو رام کے ساتھ جنگلوں میں بن باس لیۓ بھٹکتی رہی اپنے ہی شوہر کے سامنے اپنے کردار کی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیۓ جلتے انگاروں پر جلنا پڑا،حضرت ابرہیم علیہ اسلام کو آگ میں پھینکنے والا وقت کا جابر حکمران تھا جس نے انھیں جلا کر ختم کرنا چاہا اور ایک عورت کو اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیۓ انگاروں پر چلانے والا اس کا اپنا شوہر، جذام ایسا مرض جو انسانی جسم کو کھا جاتا اور گھر والے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ،تکلیف اور اذیت کی نہ کوئی دوائی اور نہ آخری لمحوں میں بند ہوتی آنکھوں اور گم ہوتی سماعتوں میں نقش چھوڑنے والا فرد مگر رتھ فاؤ نامی جرمن خاتون نے اپنی جوانی اور نزاکت بھرے ہاتھ اس مہلک بیاری کے مریضوں کو زندگی عطا کرنے میں گزار دی اور ایشا۶ جیسے پسماندہ علاقہ سے اس بیماری کو ختم کر کے دم لیا ،یہ وہ چند خواتین ہیں جن کے ذکر کے بغیر انسانی تاریخ کے مدارج طے نہیں کیۓ جاسکتے اور ان خواتین نے مردوں کے سہارے کے بغیر عشق کی منازل طے کیں مگر بہت سی ایسے خواتین بھی موجود ہیں جو خود تو چھپی رہیں مگر اولاد کی تربیت کے ذریعہ خود کو منوایا انکا ذکر کبھی پھر سہی۔