سلاٸی مشین کا دھاگا جو ٹوٹا تو وہ کمر سیدھی کرنے کو ذرا ٹیک لگا کر بیٹھ گٸی اور ذراسی ٹیک کیا لینی تھی ماضی بھی لاٹھی ٹیکتا ہوا آن پہنچا،شوہر کا گھر یا باپ کا ہمیشہ زکوة کے پیسوں سے چلا ،آسودگی کی خواہش نے بیوگی کی چادر میں پناہ لے لی،مگر وہ نہ ہاری سلاٸی مشین پر ہاتھرکھا تو برسوں اسی میں بیت گیۓ کبھی شام میں کسی کے گھر کھانا بنانے چلی جاتی یا دعوت و فوتگی پر کچھ اضافی کام کی اجرت سے بچوں کے کپڑے بن جاتے ،سالن نام کی چیز کیا ہوتی ہے بچوں کواس سے کہاں واقفیت ہونی تھی کہ نہ ہی ماں کے وساٸل سالن کے مرچ مصالحے پورے کر ستے تھے اور نہ ہی مصروف ماں کے پاس اتنا فالتو وقت کہ ہانڈی پکاۓ چنانچہ بچے دودھ کا ایک کپ لیتے اور مزے سے روٹی ڈبوتے اور کھاتے جاتے ، عید شبرات یا جمعہ کے جمعہ سالن پکتا یا کسی کے گھر سے آجاتا تب بھی بچوں کو عادت ہی نہ تھی سالن کی، وہ اکثر میرے پاس آتی اور کٸ بار اس کے بچوں کا ساتھ دینے کے لیۓ میں نےدودھ کےروٹی کھانے کی کوشش کی مگر حرام ہے جو ایک لقمہ بھی کھا سکی کبھی دودھ کا گھونٹ پہلے پی لیتی اور روٹی منہ میں خشک رہ جاتی اور کبھی روٹی کا لقمہ گلے میں پھنس جاتا اور دودھ کے ننھے سے گھونٹ سے کچھ بھی فرق نہ پڑتا ،وہ ہنستے ہوۓ کہتی ”بھابھی ایہیہ وی پوری سینیس اے جیڑی توانوں نہیں آونی“اس بار آٸ تو بہت دکھی تھی ،بیوگی اور تنہاٸی سے لڑنے والی یتیم بچوں کو پال کر بیٹی کو پڑھا کر سسرال والوں کو مکمل جہیز کے ساتھ رخصت کرنے والی خاتون بیٹی کے سسرال والوں سے ہار چکی تھی ، یتیمبچی سمجھ کر بیاہ کر لے جانے والے روز نت نۓ بیانات کے بعد کبھی ماں کو لاٸن حاضر کرتے اورکبھی بیٹی کو ساتھ لے جانے کی دھمکی دیتے مگر اس کہانی کا مثبت پہلو ابھی تک یہ رہا ہے کہ شوہر بیوی کا ساتھ دے رہا ہے اور انھی لڑائی جھگڑوں کے دوران ایک بجی دنیا میں آچکی ہے جبکہ دوسرے کے آنے کی نوید بھی موجود ہے۔