وسائل کی کمی کے شکار کثیر الاولاد والدین اپنے بچوں کے مجرم ہیں
جب وسائل کی کمی کے شکار والدین اپنی مرضی سے پیدا کیے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش میں مشقتیں اٹھاتے ہیں، تکلیفیں جھیلتیں ہیں تو درحقیقت ان کے محروم الوسائل بچے ان سے زیادہ اذیتیں برداشت کرتے ہیں۔ والدین نے تو یہ مشقتیں اپنے اختیار سے چنی ہوتی ہیں اور مستقبل میں بہتری کی امید بھی اکثر موجود ہوتی ہے، اور اگر نہیں ہوتی تو آخرت میں اپنی مشقتوں کے اجر کی توقع تو ہوتی ہی ہے، لیکن بچے جو بغیر اپنی مرضی کے، خواہ مخواہ ہی اس آزمائش میں اپنے والدین کے اصرار پر ان کی مشقتین جھیلنے کے لیے شامل ہونے پر مجبور کیے گئے، ان کو تو اپنے دکھوں کا کوئی مداوی معلوم بھی نہیں ہوتا۔ ان کا دکھ بہت ہی بڑا ہے۔
کیا ایسے والدین کی قربانیوں کو قربانی کہنا درست ہے؟
شادی اور اولاد کی پیدائش کے بعد خدا نخواستہ کوئی مصیبت آ پڑے اور آدمی وسائل سے تہی ہو جائے تو الگ معاملہ ہے لیکن اپنے وسائل کے مطابق بچے پیدا کرنے کی منصوبہ بندی تو آپ کے اختیار میں ہے۔ الٹا اس بے شعوری کو دین اور توکل کے نام نے سہارا دینا پر لے درجے کی جہالت ہے۔
ذرا سوچیے آپ کا ایک غریب دوست آ پ کو بلا ضرورت اپنا مہمان بنا لے۔ پھر وہ آپ کی خاطر تواضع بھی نہ کر سکے، بھوکا پیاسا ہی واپس بھیج دے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ اگر کوئی مجبوری ہوتی تب بھی کوئی بات تھی، یوں بلا ضرورت آپ کو مہمان بنا کر خوار کرنے پر آپ اس کو شاباشی تو نہیں دے سکتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ان والدین کا ہے جو بلا کسی منصوبہ بندی کے بچے پیدا کر لیتے ہیں۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں تو آپ اپنے اخراجات کو مینج کرنے لگتے ہیں، کپڑے، جوتے، کھانے پینے، ہر چیز میں کفایت شعاری اپناتے ہیں، اپنی بہت سے خواہشات کم کر لیتے ہیں، تاکہ مہینے کا خرچ پورے ہو سکے۔ گھر میں کوئی پالتو جانور رکھا ہو تو اسے نکال دیتے ہیں کہ خود کو پورا نہیں ہو پا رہا تو اسے کہاں سے کھلائیں۔ لیکن یہ ساری مینیجمنٹ بچے پیدا کرنے کے معاملے میں کیوں معطل کر دی جاتی ہے۔ کیا صرف بچے ہی ایسی چیز ہیں جسے خدا کے بھروسے پر پیدا کر لینے میں نا معقول حد تک لاپرواہی دکھائی جاتی ہے۔ یہ غط فہمی پیدا ہی اس تصور سے ہوئی ہے کہ خدا نے ہر بچے کے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو آپ بھی تو کسی کے بچے ہیں کیا آپ کو آپ کی ضرورت کا پورا رزق ملتا ہے؟ ہر بچہ اپنا رزق لے کر آتا ہے تو غریب والدین کے بچوں کا رزق کہاں ہے؟ وہ بھوک سے بھی مرتے ہیں اور مناسب علاج معالجہ نہ ملنے سے بھی۔ انھیں اور اپنے والدین کے رزق کے حصول کے لیے چھوٹی عمر میں کام پر کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ انہیں اینٹوں کے بھٹے پر، قالین بافی کی صنعت میں بیچ کیوں دیا جاتا ہے، جہاں ان سے بدتر سلوک ہوتا ہے، جنسی زیادتی ہوتی ہے؟ بھیک تک مانگنے پر کیوں لگا دیا جاتا ہے؟
خدا، بچے آپ کے بھروسے پر پیدا کرتا اور آپ ہیں کہ انھیں خدا کے بھروسے پر پیدا کرنے لگتے ہیں۔ دنیا خدا نے آپ کے امتحان کے لیے بنائی تھی اور آپ اس میں خدا کا امتحان لینے چل پڑتے ہیں۔ اس دنیا کی سب چیزوں میں انسان سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی پیدایش کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے بعد خدا پر بھروسہ کیا جائے۔ انسان کی پیدایش کے معاملے میں اصل توکل یہ ہے۔
یہ غلط فہمی خدا کی رزاقیت کے غلط تصور سے پیدا ہوئی ہے۔ قصے کہانیوں پر نہ جائیے، قرآن مجید میں دیکھیے کہ خدا نے اس بارے میں کیا کہا ہے۔ خدا نے وسائل رزق کی پیدایش کے حوالے سے خود کو رازق کہا ہے۔ یعنی دنیا میں جو رزق بھی پیدا ہوتا ہے وہ خدا پیدا کرتا ہے۔ دنیا کے ہر قسم جاندار کو جو خوراک و ماحول درکار ہے اس کے وسائل خدا نے پیدا کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رزق بھی کسی کو ملتا ہے وہ خدا کے پیدا کردہ رزق سے ملتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہر ہر فرد کو خدا خود رزق مہیا کرتا ہے یا اس کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ خدا کا وعدہ ہے نہ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔
بہت اچھی طرح یہ باور کر لینا چاہیے کہ اولاد کا پیدا کرنا خدا کا کوئی حکم نہیں ہے جس کی خلاف ورزی کرنے پر کوئی گناہ گار ہوتا ہو۔ بچوں کی پیدائش کا فیصلہ سراسر آپ کا اپنا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کا نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ فیصلہ کرنے یا نہ کرنے پر دین نے کوئی ہدایت نہیں دی۔ یہ گناہ و ثواب کا معاملہ نہیں ہے۔ لیکن وسائل سے زیادہ بچے پیدا کرنا البتہ صریح ظلم ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو زیادہ بچے پیدا کرنے کی روایت آتی ہے کہ اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو، تاکہ میں قیامت کے دن تمھاری کثرت پر فخر کروں، اگر درست ہے تو اس کو بھی دین کے مجموعی فریم میں رکھ کر دیکھا جائے گا۔ یہ ہدایت اس وقت کے حالات کے تناظر میں ہی درست قرار دی جاسکتی ہے۔ قبائلی معاشرت قبیلے کی افرادی قوت پر منحصر ہوتی ہے۔ جس قبیلے کے افراد زیادہ ہوں وہی طاقت ور سمجھا جاتا ہے۔ نیز اس وقت جنگی ماحول جاری تھا، جزیرہ عرب کے بعد روم و ایران کے ساتھ جنگی معرے برپا ہونے کی خبر بھی آپﷺ نے دے دی تھی۔ اس کے لیے زیادہ افرادی قوت درکار تھی۔ فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کے وسائل میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے مناسب بھی یہی تھا کہ ان کی آبادی میں اضافہ ہو۔ اس ہدایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنے وسائل کی پروا کیے بغیر بچے پیدا کر لے اور ان کی درست پرورش اور تعلیم و تربیت نہ کر سکنے کی صورت میں سماج کو بے کار افراد کا ریوڑ دے جائے۔ منصوبہ بندی کا تو یہ حال ہے کہ خدا، جسے اس کی ضرورت نہیں وہ بھی اسے اختیار کرتا ہے، پھر یہ محدود وسائل کا حامل انسان اس سے بے پروا کیسے ہو سکتا ہے؟
یہاں زیادہ تر غریب اور کم وسائل طبقہ ہی ہے جو نان بائی کی روٹیوں کی طرح بچے پر بچے پیدا کیے جاتے ہیں، اپنے ساتھ ان کو بھی مشقت، محرومی اور برے مستقبل کی تاریکیوں میں دھکیلتے چلے جاتے ہیں اور پھر اس حماقت پر اولاد کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی خود ساختہ قربانیوں کی داستانیں سنا سنا کر ان سے اپنی قربانیوں کا صلہ بھی مانگتے رہتے ہیں۔
درحقیقت اولاد بھی کھیتی کی طرح ہے۔ جس طرح کھیتی باڑی میں عقل سے کام لیا جاتا ہے کہ کیا بونا ہے، کتنا بونا، کب بونا ہے، اسی طرح اولاد کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ کتنی پیدا کرنی ہے اور کب پیدا کرنی ہے۔
رزق صرف روٹی اور کپڑے ہی نہیں ہوتے، بچوں کو تعلیم بھی دلانی ہوتی ہے، ان کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس کے وسائل کہاں ہوتے ہیں ہر ایک کے پاس۔
یہ تسلیم ہے کہ اخلاق سے عاری سرمایہ دارانہ نظام غربت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا سبب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو گالیاں ضرور دیجیے، لیکن اس ظلم کو بدلنے پر فی الحال آپ قادر نہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اس ظلم کی چکی میں پیسنے کے لیے بچوں کی صورت میں مزید ایندھن کیوں مہیا کیا جاتا ہے؟ ضرورت سے زائد بچے پیدا نہ کیے جائیں تو سرمایہ دار کو سستے مزدور ملنا بند ہو جائیں گے۔ بے محابا بچے پیدا کر کے آٌپ اس نظام کو خود مضبوط کرتے ہیں اور اپنا اور اپنے بچوں کے استحصال کا سبب بنتے ہیں۔
دولت کی منصفانہ تقسیم کے نظام کی جب تک اصلاح نہیں ہو جاتی کم وسائل رکھنے والے والدین اپنے وسائل سے زیادہ بچے پیدا کر کے ان پر ظلم کا سبب نہ بنں۔
یہاں ایک عجیب رویے پر غور کیجیے جو ہمارے لوگوں میں عام پایا جاتا ہے۔ غربت کے ہاتھوں پسنے والے ہزاروں لاکھوں غریب بچوں میں سے کسی ایک کی قسمت چمک اٹھتی ہے تو بجائے لاکھوں بچوں کی حالت سے عبرت حاصل کرنے کے چند ایک خوش قسمت بچوں کے بل بوتے پر کہا جاتا ہے کہ بچے پیدا کرتے جاؤ کیا معلوم وہ بھی قسمت کا دھنی نکلے۔ آپ بچے پیدا کر رہے ہیں یا جوا کھیل رہے ہیں اور وہ بھی ایک انسان کے بل پہ!! یہ اگر قسمت کا دھنی نہ نکلا تو کیا ہوگا؟ کسی ایک کی قسمت کا انفرادی واقعہ دوسرے کے لیے کوئی پیٹرن نہیں ہوتا۔ افراد کی زیادہ بڑی تعداد عمومی حالات کا شکار ہوتی ہے۔ غیر معمولی واقعہ کی توقع میں زندگی کے کسی کام کی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ بے عقلی صرف بچوں کی پیدایش کے معاملے برتی جاتی ہے، باقی ہر معاملے میں یہ عقل نفع نقصان کا پورا حساب درست طریقے سے کرتی ہے۔ جس دھندے میں دس بار نفع اور دس بار نقصان ہوتا ہو یہ وہ بھی نہیں کرتے مگر بچے جن میں سے ننانوے فیصد غربت کی محرومیوں کا شکار ہو کر ہی رہتے ہیں اور کوئی ایک دو اس گھن چکر سے سے نکل پاتے ہیں تو مزید بچے پیدا کرنے کے لیے ان کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم بچے مثال بن سکتے ہیں تو نناوے فیصد سے زائد عبرت کی مثال کیوں نہیں بنتے؟
بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے دنیا میں لانے سے پہلے اس کے کھانے پینے، کپڑوں، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم وتربیت اور اسے مناسب وقت دینے کے وسائل والدین کی استطاعت اور امکانات کے دائرے میں ہوں۔ ایسے ہی جیسے گھر میں کسی مہمان کو لانے سے پہلے آپ اس کی خاطر تواضع کا انتظام کرتے ہیں اور اتنے ہی مہمانوں کا انتظام کرتےہیں جتنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
اگر یہ سب تسلیم نہیں تو اپنی غلطیوں کا الزام قسمت کو نہ دیجئے اور نہ اپنے بچوں پر اپنی غربت کا غصہ نکالیے۔ اور ہاں، اپنے بچوں سے اپنی پرورش کا صلہ نہیں، معافی طلب کیجئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“