ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے، ایک عورت ہونا آسان کام نہیں، ان کا ساری زندگی اپنا گھر نہیں ہوتا، چاہے وہ ماں باپ کا گھر ہو یا پھر شوہر کا گھر۔ عمومی طور پر ہمارے ہاں یہی سوچ پائی جاتی ہے کہ عورت کی ساری زندگی مشکلات سے لبریز ہوتی ہے۔ عورت کی وسعتوں کو ہر لکھنے والے نے ماپنے کی کوشش کی، اسے بے بس، مجبور، مظلوم اور بے سہارا اور پتا نہیں کیا کیا کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرد اور عورت کو باری تعالیٰ نے ایک ہی مٹی سے پیدا کیا ہے، ان کا خمیر ایک ہی ہے لیکن ذمہ داریوں کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور عورت یا بیٹی کی پیدائش کئی والدین کو غمگین اور مایوس کر جاتی ہے، یہ سب تو ہماری ایک مجموعی سوچ کا ردعمل ہے کہ لڑکے کی پیدائش پر سینہ چوڑا کرنے والے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہی لڑکا جب عمر کی منازل طے کرتے کرتے لڑکپن اور جوانی تک پہنچتا ہے تو اس میں احساس ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے۔ والد کی غیر موجودگی میں اس کے کندھوں پر ماں اور بہنوں کی دیکھ بھال، ان کی ضروریات کی تکمیل کا بوجھ اور ان کا وارث ہونے کی سوچ جنم لیتی ہے۔ اس دوران اسے کئی طرح کے Challenges کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو جوابدہ ہے۔ حالات اگر اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ سکول اور کالج میں دوسرے لوگوں کی طرح باقاعدہ تعلیم حاصل کر سکے تو اس کے کندھوں پر پڑنے والا بوجھ ا سے مزدور، ریڑھی بان، دکاندار، ڈرائیور، کنڈکٹر اور ہر نچلے درجے کا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور بعض دفعہ تو اسے پڑھائی کے ساتھ ہی کوئی کام دھندہ کرنا پڑتا ہے۔
اس ساری کشمکش میں اس کی ساری توجہ اپنی بہنوں کی شادی اور اپنا ذاتی گھر بنانے پر مذکور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو عورت ایسی ہر ذمہ داری سے آزاد ہوتی ہے کہ اسے بھی اپنا ذاتی گھر بنانا ہے، بلکہ وہ تو بنے بنائے گھر میں جایا کرتی ہے۔ عورت اس معاملے میں تھوڑی خوش قسمت ہے کہ وہ B.A یا M.A مکمل کرلینے کے بعد شادی کرنے کی کنڈیشن میں آ جاتی ہے اور اس کے گھر والوں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے، جبکہ مرد کے لئے یہ کنڈیشن کافی مختلف ہوتی ہے، مرد کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک پرکشش جاب ہو، اس کا ایک خوبصورت ذاتی گھر ہو، ایک بھاری Income رکھتا ہو، اور اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے Challenges کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس اسٹیج تک تو ماں اور بہنیں ہی اس کی عزت، غیرت اور ذمہ داری ہوتی ہیں، اور بمشکل اگر وہ ان ساری ذمہ داریوں کو پورا کرتے کرتے اپنی نئی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے یعنی شادی کر لیتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں اب ایک نئی اور انوکھی نوعیت میں اس کے فولادی کندھوں پر آن پڑتی ہیں۔ اب اس کی بیوی اس کی عزت اور غیرت ٹھہرتی ہے۔ وہ ایک مختلف اور نئی سوچ کے ساتھ اپنے خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھتا ہے، اور جیسے ہی وہ ایک بیٹی کا باپ بنتا ہے تو اسے بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کے آنے والے کل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگ جاتا ہے۔
بیٹی کے اخراجات، ضروریات یہاں تک کہ جہیز کے لئے ایک نئی طرح کی پلاننگ کے ساتھ میدان میں اترتا ہے۔ اور آخر کار اس بوجھ سے آزاد ہونے کے بعد وہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے، اور کئی طرح کی بیماریاں اس کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں۔ یہ ساری ذمہ داریاں مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر مرد کا مقدر بنتی ہیں اور وہ بخوشی ان کو سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے۔ عورت پر بھی کافی ذمہ داریاں ہوتی ہیں مگر وہ نوعیت کے لحاظ سے تفاوت رکھتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرتے کرتے مر د کو بعض دفعہ پردیسی بھی ہونا پڑتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ اسے اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کرنی ہے اور وہ کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔
باری تعالیٰ نے مرد کو فولادی کندھے عطاء کیئے ہوتے ہیں اسی لئے وہ عورت، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی عزت و غیرت پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا اور اپنی ذمہ داریوں سے کبھی بھی روگردانی نہیں کرتا ہے۔ مرد ایک بہت خوبصورت مخلوق ہے اور حق تعالیٰ نے یہ ذمہ داریاں اسی کو سونپی ہیں، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں جسمانی طور پر کمزور، عجلت پسند، اور مضبوط قوت فیصلہ کی مالک نہیں ہوتی ،ذہنی طور پر بھی کمزور ٹھہری ہے اور وہ کہیں نا کہیں ان ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جائے گی، لہذا یہ تمام تر ذمہ داریاں اور بوجھ مرد کے حصے میں آتی ہیں، جن کی تکمیل کے لئے مرد ہوش سنبھالنے سے لے کر آخری سانس تک تگ و دو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں نا کہیں مرد بھی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کمزور پڑ جاتا ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہے۔ اس کے سینے میں بھی ایک دل ہے، اس کی خواہشات ہیں، وہ بھی کچھ خواب دیکھتا ہے، یقین مانیں اس صورتحال میں مرد بھی تنہائی کے لمحات میں رو لیتا ہے، اور اس طرح وہ دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے، لیکن کبھی بھی لوگوں کے سامنے اپنی مجبوریوں اور ذمہ داریوں کا رونا نہیں روتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح کو اس کی بساط کے مطابق ذمہ داریاں سونپی ہیں اور مرد نے اللہ کی طرف سے سونپی گئی ہر ایک ذمہ داری کو بطریق احسن انجام دیا ہے اور کبھی بھی اس معاملے میں اس نے خدا تعالیٰ سے شکایت نہ کی ہے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...