لاکھوں سال سے مادری اور پدری نظاموں اور خاندانوں کی جنگ چل رہی ہے۔ کبھی عورت جیت گئی کبھی مرد۔ شروع میں عورت شکار کر کے لاتی اور مرد کو کھلاتی۔ ایسے میں عورت کو خاندان میں ایک فوقیت رہی۔ پھر مرد نے کھیتی باڑی کے اوزار تیار کر لیے اور محض اسی بنیاد پہ وہ فوقیت حاصل کر گیا۔
اسلام سے قبل بیٹی کو زندہ دفن کر دیا جاتا۔ پھر ظہور اسلام ہوا تو عورت ( بیٹی ) کی عزت اور اہمیت کو طے کر دیا گیا۔ اس کے حقوق کو ایک واضح سمت عطاء کی گئی۔ یہاں تک کے اسے تعلیم حاصل کرنے کا حق، وراثت میں اس کا حصہ، رشتہ طے کرنے کے معاملے میں اس کی مرضی معلوم کرنا، یہ سارے حقوق( بیٹی ) کو مذہب نے دیے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم عورت ( بیٹی) کے معاملے میں بے حد مضطرب ہوتے جا رہے ہیں۔ بیٹی کے پیدا ہونے پہ مضطرب کہ اب کیا ہو گا، آنے والا وقت کیسا ہو گا، آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟
بیٹی کو تعلیم دلوانے کے معاملے میں بھی مضطرب، کہ بیٹی کو سکول کالج تو بھیج رہے ہیں کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے، معاشرے میں ہماری ناک نہ کٹ جائے، ہمارا سر نیچا نہ ہو جائے۔ تعلیم بھی مکمل نہیں ہونے دیتے اور اسے جلدی گھر سے نکالنے کی فکر میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے ڈھنگ رشتہ کر دیتے ہیں کہ بس جلدی جلدی ہماری بیٹی کا رشتہ ہو جائے۔
بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے ہم کبھی بھی ذات پات، حسب ونسب پہ سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن تعلیم ،روزگار، اور کردار پہ سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔ کہ خیر ہے لڑکا پڑھا لکھا نہیں بھی ہے تو چل جائے گا۔ بیٹی کو کیا اسی لیے پڑھایا جاتا ہے کہ کسی جاہل، گنوار یا بڈھے کے حوالے کر دیا جائے؟ ایک دفعہ بھی ہم بیٹی سے رائے نہیں لیتے،یہاں بھی بیٹی کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ پھر خاندانی معاملات کو سنوارنے اور برسوں پرانی دشمنیوں کو ختم کرنے کے لیے بھی بیٹی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دیگر ایسے معاملات میں باپ اپنی پگڑیاں بیٹیوں کے پاؤں میں پھینک کر کیا بیٹیوں کو ایموشینل بلیک میل نہیں کرتے؟ یہاں پر کیا بیٹی قربانی نہیں دے رہی؟ یہ محض اضطرابی کیفیت ہے۔
ہمارے یہاں یا تو شادی بہت دیر سے کی جاتی ہے، بیٹی کے لیے اچھا رشتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بیٹی کا سر سفید کر دیا جاتا ہے، یا پھر وقت سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے۔ یہ محض ذہنی اضطراب ہے اور کچھ نہیں۔ یہ محض ہمارے اندر کا خوف ہے اور کچھ بھی نہیں۔ آپ بیٹی کو وراثت میں حق نہ دیں۔ اس سے تعلیم کا حق چھین لیں۔ اس کی ساری آزادیاں چھین لیں۔ براہ کرم! رشتہ طے کرتے وقت بس ایک دفعہ اس سے اس کی رائے لے لیا کریں کیوں کہ یہ ساری زندگی گزارنے کا سوال ہے۔
کیوں بیٹیوں کو جہنم میں پھینکتے ہو؟ کیوں ان سے جینے کا حق چھینتے ہو؟ کیوں ان کی آواز دباتے ہو؟
بیٹی سے رائے نہ لینا اسے زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ جس عورت ( بیٹی) کے وجود سے کائنات کو دوام ہے اسے اس قدر ناز نکھرے سے پال پوس کر بغیر اس کی مرضی اور پسند کو سمجھے، کسی اندھے کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ روایت کب ختم ہو گی ؟ کب بیٹی کے وجود کو تسلیم کیا جائے گا؟
کب اس کے جذبات کی قدر کی جائے گی؟ کب بیٹی اور بیٹے کے درمیان فرق کو ختم کیا جائے گا؟ کب اس کی آنکھوں سے بہتے موتیوں کو چنا جائے گا ؟
[email protected]
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...