شیدے نے یہ کام کب شروع کیاشاید وہ خود بھی ٹھیک سے نہ بتاسکے۔ بس اتنا یاد ہے کہ جب بھوک آنکھوں کے آگے ناچنے لگی اور روزگارکی تلاش میں قدم قدم پر سوائے دھکوں کے کچھ نہ ملا تو ایم اے پاس عبدالرشید ، شیدا پھیری والا بن گیا۔
دھکوں سے پیٹ بھرتا ہے نہ آنکھوں کے آگے ناچنے سے بھوک دم توڑتی ہے۔۔۔!
پیٹ کے جہنم نے نہ جانے کتنے عبدالرشید ، شیدے بنائے ہوںگے۔
بوڑھی ماں،تاڑ کی تیز سے جوان ہوتی بہن اور چھوٹے بھائی کی بے فائد ہ تعلیم، باپ کے مرتے ہی سارے رشتے سوال بن کر آ کھڑے ہوئے۔آخر کسی نے تو گھر کا پہیہ چلاناتھا ۔
پتہ نہیں غریبوں کے بچوں میں پڑھائی کا شوق کیوں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔۔۔!
ایم فل کی تعلیم ادھوری چھوڑتے ہوئے اس نے سوچاکہ کوئی چھوٹی موٹی دفتری نوکر ی کرتے ہوئے تعلیم کا سلسلہ پھر سے جوڑ لے گامگر اتنی آسانی سے ساری خواہشات پوری ہونے لگیں تو خدا کو کوئی کیوں یاد کرے۔
عبادت گاہوں کا کاروبار کیسے چلے اور معاشرے کی تو ساری تاروپود ہی نہ بکھر کر رہ جائے۔
اتنا سب کچھ ، اتنے آرا م و سکون سے دینا تھا تو پھر یہ دنیا کاہے کو بنائی گئی اورساری چترائیوں کا کیا فائد ہ ہوا۔
سو نوکری ملنی تھی نہ ملی اور پھر ایسے ہی جوتے چٹخاتے چٹخاتے وہ ایک دن اندرون شہر کی ایک دکان پر موبائل سیلزمین لگ گیا۔
سیلزمینی کیا تھی۔۔۔ بس ہر صبح ریڑھی پر منیاری کی دکان لادتا اور کسی مضافاتی کالونی یا نئی آبادی کی طرف نکل پڑتا۔شام کو واپسی پر حساب کتاب اور دو چار سو کی بچت جو گھر کے چولہے میں بمشکل چند چنگاریاں ہی سلگا پاتی۔باقی سارے خرچے ہر روز اگلے دن پر ٹال دیئے جاتے۔شیدےکے گھر میں کرداروں کو لمحہ لمحہ موت کے گھاٹ اتارتی یہ کہانی نئی تھی ،انوکھی اور نہ ہی اس میں کسی کو کوئی دل چسپی ۔ دل چسپی تو اسے اب اپنی منیاری کی ریڑھی پر لدے زیرجاموں، انگیائوں، ریشمی و سوتی سینہ بند اور اس نوع کے کچھ اور ملبوسات سے بھی نہیں رہی تھی۔اس کی ریڑھی کے تین چوتھائی حصے پریہی مال دھر اہوتا تھا، سفید، سیاہ، سرخ، خاکی ،جامنی ،سنہرے ، سبز سارے رنگ ہی تو اتر آتے تھے اس کی ریڑھی پر، گول گول کٹوریوں میں سمٹ کر۔پہلی بار جب وہ حاجی صاحب زری والے کی دکان سے متصل گودام سے مال ریڑھی پر لادنے کیلئے گیا تھا تو ان ملبوسات کے ڈھیر دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔ پرانے کاری گروں نے نئے انکشافات سے اس کا سینہ کھول دیا اورجب وہ ریڑھی لے کر نکلا تو اسے ایسا لگا کہ وہ چلتی پھرتی عریانی کا منہ بولتا اظہار ہو۔عبدالرشید ایم اے پاس کو بڑی جھجک محسوس ہورہی تھی اور چند روز تک تو وہ منیاری کا سامان لے کر ایسے چلا جیسے اس کے اپنے کپڑے اتار کر کسی نے ریڑھی پر رکھ دیئے ہوں۔مگرجلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی آئٹمز بھی یہی ہیں۔لوگوں کی نظریں سامان پر زیادہ اور اس پر کم پڑتی تھیں مگر اسے ایسے لگتا جیسے سب اسے ہی گھور رہے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں لعن طعن کررہے ہیں۔اوپر تلے تہہ در تہہ رکھے گئےبنڈل جنہیں دیکھتے ہی من چلوں کی آنکھیں شرارت سے چمکنے لگتیں۔ شیدے نے کئی شرفا کی آنکھوں کو بھی چمکتے ہوئے دیکھا تھامگر یہ چمک شرارت کی نہیں ہوتی تھی۔وہ ریڑھی کو اتنی تیز چلاتا جیسے بھگا لے جارہا ہواور لائوڈ سپیکر کے ذریعے نشر ہونے والی ریکارڈنگ کو بھی اکثر بند رکھتا۔دو چارہفتے گذرے مگر ا س کے رویے کی وجہ سے بکری نہ ہوسکی اور اس کا کمیشن بھی کم بنا ۔ شیدے کی پہلی گاہک ایک بوڑھی خاتون تھی جس نے اپنے گھر کے قریب سے گذرتے ہوئے اسے روکا اور بے توجہی سے اپنی بچیوں کیلئے خریداری کرنے لگی۔ شیدے کی زبان ساتھ دے رہی تھی نہ ہاتھ اس کے قابو میں تھے۔ اسے لگا جیسے کسی نے اسکی چوری پکڑ لی ہو۔بڑھیا نے بھائو تائو کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے پیسے اُسے تھمائے تواس کےحلق سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ دو تین گھر آگے آکر ا س نے ریڑھی ایک طرف کھڑی کی، سائے میں بیٹھ کر ماتھےسے پسینہ پونچھااور اپنے حواس بحال کرنے لگا۔گھر کا چولہا سسکنے لگا تو اس نے پرانے سیلزمینوں سے رہ نمائی لی۔چند ہی ہفتوں میں اس کا یہ حال ہوگیا کہ زبان چلتی ، ہاتھ اپنا کام کرتے اور اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔
باجی ! یہ دیکھئے نیاڈیزائن ہے
بھائی جان کو بہت پسند آئے گا۔
جامنی رنگ کابھی ایک رکھ لیں۔
میری مان کر تو دیکھیں۔
آج کل مال شارٹ ہے ۔
اس کے دام کم نہیں ہوں گے۔
آپ کو خاص طور پر دے رہا ہوں ۔
من کو گدگدانے والے ایسے بے شمار جملے ،مگر شیدا اب پیشہ ور پھیری والا بن چکا تھا جو رٹے ہوئے طوطے کی طرح یہ الفاظ دہراتا رہتا تھا۔
کوئی جذباتی ہیجان نہ کوئی کشش،، پیٹ کی بھوک سب کچھ ہضم کرچکی تھی۔
روزگار کے آزارسے بعض انگیٹھیوں میں دبیچنگاریاں پڑے پڑے ہی راکھ ہوجاتی ہیں یا پھر ان کوسلگانےکیلئے اور طرح کی دھونکنی درکار ہوتی ہے۔
آہستہ آہستہ اس نے اپنی چھوٹی سی مارکیٹ بنالی تھی جو چند کالونیوں پر مشتمل تھی۔ وہاں کے ہر گھر کی ایسی کسی ضرورت کا شیدے کو نہ پتا ہو، ایسا ہوہی نہیں سکتا تھا۔ایم اے پاس عبدالرشید کوئی غبی طالب علم نہیں رہا تھا جو اسے کچھ یاد نہ رہتا ہو۔ کس گھر کا مزاج کیا ہے۔ کہاں رونق ہے اور کہاں غیر حاضری، کون اشاروں سے بات سمجھاتی ہے۔ کون آنکھوں سے بولتی ہے اور کس کی زبان شوخیاں بکھیرتی ہے۔ اُسے سب پتہ ہوتا تھا۔کس کے دن بدل رہے ہیں اور کس کی راتیں بے قرار ہوگئی ہیں۔
اسے سب پتہ ہوتا تھا مگر دماغ میں جمع جوڑ یہ حساب اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈالتا تھا۔ کوئی ہک ٹھیک کرکے دیتے ہوئے،کوئی دھاگہ ، ریشہ کھینچتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ نہیں کانپتے تھے۔ کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کے تناسب اور پسند کے مطابق مال نکال کر آگے رکھ دیتا تھا۔
بس اپنی نگاہیں نیچی اور من صاف رکھنا۔۔ کاروبار میں دیانت داری اور پاکیزگی ، رزق میں برکت ڈالتی ہے ۔
ایک پرانے سیلزمین کی یہ بات اس نے گرہ باندھ لی تھی اور اس دن سے نہ کبھی اسے منچلوں کی شرارتی آنکھیں نظر آئیں اور نہ ہی کھلتے کواڑوں سے نکلتے وجود جو اُس سے مال خریدتے تھے۔کاروبار جما تو گھر کے حالات میں بھی بہتر ی آنے لگی تھی ۔ عبدالرشید ایم اے پاس ، شیداپھیری والا بننے پر اب راضی ہوچکا تھا ۔ ایک روز ایک مضافاتی کالونی میں مال بیچتے ہوئے مدرسے کے لڑکوں نے اسے گھیر لیا
ارے، او،بدبخت ، یہ کیا سرعام فحاشی و عریانی پھیلارہا ہے، تجھے کوئی شرم وحیا نہیں،
اُن میں سے ایک نے جو شاید ان میں سب سے بڑا تھا، دہاڑتے ہوئے کہا۔
شیدے نے خالی نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور بولا،
میں تواپنا کام کررہا ہوں میرے بھائی، اس ریڑھی پر جو بھی مال رکھا ہے ، وہ سب بیچنے کیلئے ہے ۔
تمہاری ریڑھی پر نظر پڑتےہی طبیعت گمراہ ہوجاتی ہے، آنکھوں کا گُناہ ہوتا ہے۔ یہ کیا فضول کام ڈھونڈا ہے تم نے کرنے کو،وہی لڑکا دوبارہ چیخا۔
تمہیں اس سے کیا سروکار، اگر تمہیں یہ سب دیکھنا اچھا نہیں لگتا تودیکھتے ہی کیوں ہو۔ویسے بھی یہ سب کچھ تمہارے لئے تو ہے نہیں جو تم اس طرف کھنچے چلے آئے ہو۔ شیدے نے جواب دیا تو وہ سب غصے میں آگئے۔
آئندہ یہاں پر یہ سب کچھ اس طرح لے کر آئے تو تمہیں تمہارے سامان سمیت آگ لگادیں گے۔
ایک لڑکے نےدھمکی دی تو شیدا بھی طیش میں آگیا۔
کیوں بھئی،کیامطلب ہے تمہارا، اتنی محنت کرکے میں نے اپنا کام جمایا ہے اور تم بلاوجہ کے فتوے ٹانک رہے ہو۔
میں پوچھتا ہوں کہ تمہیں میرے کام سے تکلیف ہی کیاہے ۔ میں چوری کررہا ہوں نہ کسی کا مال چھین رہا ہوں ، بھیک مانگ رہا ہوں نہ خیرات کے ٹکڑوں پر پل رہاہوں
آخری جملہ بولتے ہوئے اس کا لہجہ طنزیہ ہوگیا اور یہ ہی جملہ اس کی شامت بن گیا۔
سب لڑکوں نے مل کرشیدے کی خوب دھنائی کی اور مار پیٹ کے بعد دھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔
شید اکچھ دیر پڑا کراہتا رہا ،پھر ہمت کرکے اٹھا۔ ریڑھی مدرسے کے باہر کھڑی کی اور خُود اندر چلا گیا۔
اس نے بڑے قاری صاحب کو سارا ماجرا بیان کیا اور ان لڑکوں کی شکایت کی۔
شیدے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے بھی لڑکوں کی نہ صرف طرف داری کی بلکہ اسے خوب کھری کھری سنادیں۔
عبدالرشید، تم فحاشی و عریانی کا جوکاروبارکررہے ہو،اس سے حاصل ہونے والا رزق بھی حرام ہے۔ لوگوں کے جذبات کو گمراہ کرتے ہو، انہیں گناہ کی دعوت دیتے ہو۔ قاری صاحب نے بھی وہی موقف اپنایا۔
میں کہاں لوگوں کو گمراہی کی دعوت دیتا ہوں۔خرابی میری ریڑھی میں نہیں بلکہ لوگوں کی نظروں میں ہے، ان کے دماغوں میں رچی بسی ہے ۔ ان کے حواسوں پر چھائی ہوئی ہے۔ میری اس جاں توڑ اور دیانت داری سے کی گئی محنت کو حرام کیسے کہہ سکتے ہیں۔
ایم اے پاس نوجوان کا علم سوال اٹھارہا تھا مگر قاری صاحب فتویٰ صادر کر چکے تھے۔
تم کوئی اور کام کرلو اور اگر کچھ نہیں ملتا تو دو وقت کی روٹی کیلئے میرے مدرسے میں آجایا کرو۔
مخیر حضرات کے دم سے یہاں کھانے کی کوئی کمی نہیں ۔ انہوں نے تفاخر سے کہا
شیدا معنی خیز نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔
ہاں، پچھلے جمعے کی نماز میں نے مدرسے کی مسجد میں ہی پڑھی تھی اور چندہ بھی دیا تھا۔
اُس نے آہستہ سے کہا مگر قاری صاحب نے سنی ان سنی کردی۔
تم اپنا کاروبار بدلو یا آئندہ یہاں نظر نہ آنا۔ انہوں نے تنبیہ کی۔
شیدا تھوڑی دیر چپ چاپ بیٹھارہا اور پھر اجازت لے کر باہرنکل آیا۔
اتنی دیر میں قاری صاحب کے اشارے پر مدرسے کے طالب علم اس کی ریڑھی کو آگ لگا چکے تھے۔ شید ابدحواس ہو کر ریڑھی کی طرف لپکا اور آگ بجھانے کے جتن کرنے لگا مگر پھر بھی اس کا کافی سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ بوجھل دل اور شکستہ قدموں کے ساتھ وہ واپس ہولیا لیکن راستے میں ایک دو گھروں میں ضروری مال دینا نہ بھولا۔ ایک اچھاسیلز مین ہر حال میں اپنے وعدے پر پورا ترتا ہے۔
اس کی تربیت کرنے والوں نے بتایا تھا۔
قاری صاحب رات گئے اپنی بیوی کے ساتھ چہلیں کررہے تھے۔ پیش قدمی کے دوران اچانک جامنی رنگ دیکھ کرکھِل اٹھے۔
اچھا۔۔۔ آج تو ہماری فرمائش پوری کردی گئی ہے۔
کیا کہنے ،کیا ہی کہنے۔۔ وہ تحت اللفظ میں گنگنائے۔
آج ہی خریدی ہے۔۔بیوی نے اٹھلاتے ہوئے جواب دیا۔
ہلکی سی دھوئیں کی لکیر پڑ گئی ہے، منیاری والا بتا رہا تھا کہ کسی بدبخت نے اس کی ریڑھی کو آگ لگادی تھی۔
اللہ غارت کرے ایسے لوگوں کو ۔ بے چارے غریب کا کافی نقصان ہوگیا۔
میں نے اگلی بار اسے سرخ رنگ لانے کا کہا ہے ۔
قاری صاحب کو بیگم کی آواز میلوں دور سے سنائی دے رہی تھی۔ انگیٹھی میں دبی چنگاری برف کا گولہ بن رہی تھی۔
اگلے روز مدرسے کے دارلاقامہ کے نگراں نے لڑکوں کے کمروں کی تلاشی کے بعد برآمد ہونے والا سامان قاری صاحب کے سامنے رکھ دیا
جامنی رنگ یہاں بھی نمایاں تھا۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1820126754884973/
“