عیدالاضحیٰ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیدالاضحیٰ کے روز خطیبوں سے ایک نصیحت تواتر کے ساتھ سننے کو ملتی ہے کہ آج کل کے بچے اپنے والدین کی بات نہیں مانتے جبکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بچے تھے اور اپنے والد یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فقط ایک خواب پر اتنی اطاعت اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ ِ انسانی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد خطیب ہمیشہ علامہ اقبالؒ کا ایک شعر بھی پڑھتے ہیں،
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُس دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عمل سے کہیں زیادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عمل قابلِ تقلید، عزیمت، ہمت اور قربانی کا عمل ہے جسے بطور سنتِ ابراہیمی زندہ ہونا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عمل کیا تھا؟
’’اپنے اللہ کی محبت میں اولاد بھی قربان کرنا پڑے تو کردی جائے‘‘
تاریخ ِ انسانی میں حضرت ابراہیمؑ کے عمل پر سوائے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، کسی مسلمان کی مثال نہیں ملتی جس نے اللہ کی محبت میں اپنے بچوں کی قربانی دی ہو۔ امام حسین ؓ تو ایک لحاظ سے اِس قربانی میں ابراہیمؑ سے بھی آگے بڑھ گئے کہ یہاں سچ مچ بچے قربان ہوگئے۔
ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو خدا کے حکم پر قربان کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ فی الاصل ایک تمثیلی واقعہ ہے۔ جس میں خدا پرستوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ خدا کی محبت میں اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتاہے۔ اولاد کیا ہے؟ اولاد نسل یعنی قبیلہ کی بنیاد ہے۔ قران نے کئی جگہ اولاد کو فتنہ بھی کہا ہے۔ المال والبنین فتنۃ الحیاۃ الدنیا وغیرہ۔ اسی طرح اولاد کو بھی زینت کی چیزوں میں شمار کیا ہے۔ کہیں بھی اولاد کو مقصدِ حیات نہیں بتایا۔
بنیادی مسئلہ ہی یہی رہا انسانیت کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاؑ کے ذریعے بار بار انسانوں تک اپنا پیغام پہچایا کہ نسل میں بقا نہیں ہے لیکن لوگ تھے مان کر ہی نہیں دیتے تھے۔ نوح علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا کتنا صاف اور واضح مکالمہ ہے۔ جب نُوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہونے لگے تو دیکھا کہ بیٹا ڈوبنے جارہا تھا۔ نادیٰ نُوحُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نوح نے ندا کی۔ اے اللہ یہ تو میرا بیٹاہے۔ اللہ تعالیٰ کا جواب تھا کہ (مفہوم) یہ تیرابیٹا نہیں ہے۔ یعنی تیرے بیٹے تو تیرے ساتھ کشتی میں سوار ہیں۔ اس سے ایک ہی نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ بیٹے تو وہ ہوسکتے ہیں جو آپ کی لگیسی برقرار رکھیں نہ کہ وہ جو آپ کے خون یا ڈی این اے کو آگے بڑھائیں۔
یعقوب علیہ السلام نے بیٹے کی محبت میں غلو کیا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے نبی کا یہ عمل پسند نہ آیا اور تمثیل میں ہم جس چیز کو یعقوبؑ کا نابینا ہوجانا کہتے ہیں وہ فی الاصل بیٹے کی محبت میں اندھا ہوجانا تھا۔ آپ یوسفؑ کے لیے سب کچھ بھول گئے۔ کیوں؟ آپ کا ایسا کرنا اللہ نے پسند نہ کیا۔
ایک ایک نبی کی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کہیں آباؤاجداد تو کہیں اولاد غرضیکہ خاندان اور قبیلہ پرستی کو اسلام نے ناپسند کیا ہے۔ یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے ہی بھیج دیا۔ غالباً اس عمل سے بھی خدا کا یہی مقصد رہا ہوگا کہ انسان آباؤاجداد اور اولاد کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ جتنی وہ دیتے ہیں۔ لیکن ہم انسان بھی عجب مخلوق ہیں۔ اسباق ہمیشہ بالکل الٹ ہی اخذ کیا کرتے ہیں۔ عیسیٰ ؑ کے جانے کے بعد ہم نے الٹا خدا کو ہی باپ کہنا شروع کردیا اور باپ کو ’’فادر‘‘۔ جس کا دوسرا مطلب ہی یہی تھا کہ آباؤاجداد بڑے بابرکت ہوتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو قران میں والدین پر احسان کرنے کا مشورہ دیا گیاہے۔ احسان کوئی فرض نہیں ہوتا۔ اسی طرح ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘ سے ہمیشہ یہ معنی اخذ کیا جاتاہے کہ ’’ماں کی قدر کرو‘‘۔ جبکہ حدیث کے الفاظ سے یہ بھی تو اخذ کیا جاسکتا تھا کہ بچوں کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے، ماں جیسا قدم اُٹھائے گی بچے اُسی حساب سے جنت یا جہنم کے حقدار ٹھہریں گے۔ اس مفہوم کے حق میں بائیبل کی وہ آیات غالباً ’’جن میں انسان ماں کے گناہوں کا بوجھ لادے دنیا میں آیا ہے‘‘ وغیرہ جیسا مفہوم پایا جاتاہے پیش کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ اسلام نے فازلّھما الشیطٰن کہہ کر مسئلہ حل کردیا ہے کہ ’’دونوں کو شیطان نے بہکایا تھا‘‘۔ یعنی صرف ماں کے گناہوں کا بوجھ نہیں ہے۔ جیسا کہ بائیبل نے کہا بلکہ اگر بوجھ ہی کہناہے تو پھر باپ کے گناہوں کا بوجھ بھی ساتھ ہوگا۔ اور ویسے بھی قدیم ترین انسانوں میں باپ کا وجود نہیں تھا۔ صرف ماں سے ہی بچے کی پہچان ہوتی تھی۔ جب انسان غاروں میں رہتے تھے تو ابھی شادی کا ادارہ وجود میں نہیں آیا تھا اور زیادہ تر غار میں موجود عورتوں کا ایک ہی شوہر یعنی قبیلے کا سردار مرد ہی اُن سب کے بچوں کا باپ ہوتا تھا۔ درندوں میں تو جبلی طور پر یہی طریقہ پایا جاتاہے۔
باپ کی محبت، ماں کی محبت، اولاد کی محبت، ان میں سے کسی کی محبت بھی اگر آپ کی خدا کے ساتھ محبت کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو پھر اس کی قربانی لازمی ہےاور میانہ روی سے اسلامی طریقِ زندگی اختیار کرتے ہوئے، اس محبت کو جس بھی مناسب طریقے سے کم کیا جائے، کیا جانا چاہیے۔
غالباً اِس میں بھی خدا کی کچھ حکمت تھی کہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم پیدا کیا۔ ماں باپ کے بغیر۔ اگر رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین حیات ہوتے تو یقیناً آپ کے سنتوں میں کئی ایسے طریقے پائے جاتے جن میں غلو پیدا ہونے پر والدین کے بُت کھڑے ہوسکتے تھے۔ غالباً رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کو نرینہ اولاد دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی لیے واپس لےلی کہ اولاد کی محبت کا بُت بھی اُمت کے سامنے نہ کھڑا ہوسکے۔
اقبال نے بڑی محنت سے اس سارے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر جب ’’قوم مذہب سے ہے یا نسل سے؟‘‘ اس سوال کا جواب ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے آیا تو اقبال نے بڑے جوش و خروش اور اُس وقت بڑے بڑے علمائے دین کے ساتھ براہِ راست مخالفت مول لے کر یہ کہا تھا کہ ’’قوم مذہب سے ہے‘‘ اور جتنے بھی دلائل دیے تھے وہ انبیاؐکی زندگیوں سے دیے تھے۔
ایک دن میں اسی مضمون جیسی باتیں کررہاتھا۔ نسیم عباس صاحب کے دفتر میں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ نسیم صاحب مسلکاً شیعہ ہیں۔ اچانک میری بات کو کاٹ کر نہایت حیرت سے گویا ہوئے،
’’اوئے ہوئے ہوئےہوئے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سارا نظریہ اگر درست مان لیا جائے تو ہمارے شیعہ مسلک میں سادات کو جو رتبہ حاصل ہے یا اہلِ بیت سے محبت کا جو نظریہ موجود ہے وہ تو ہوا میں اُڑجائےگا‘‘
میں نے جواب میں کہا،
’’اگر ایسی بات ہے تو پھر آپ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کا مقصد ہی نہیں سمجھ پائے اور اگر اولاد کو خدا کی محبت پر قربان کردینے کا سبق آپ واقعہ کربلا سے اخذ ہی نہیں کرپائے تو آپ کس طرح اپنے آپ کو حسینی کہہ سکتے ہیں؟‘‘
اہل بیت کی محبت بالکل مختلف چیز ہے۔ ہم اہلِ بیت کے ساتھ محبت کرتے ہوئے بھی اپنے والدین اور اولاد کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کرسکتے ہیں۔
جب مکّے کے نوجوان صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر یہ کہا کرتے،
’’یارسول اللہ ﷺ ہمارے والدین آپ پر قربان‘‘
تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا تھاکہ وہ اپنے والدین کو چھُری سے ذبح کردینگے۔ اس کا ایک ہی مطلب ہوتا تھا کہ والدین کی محبت آپ کی محبت پر قربان اور آج کے بعد والدین سے بڑھ کر ہمارے لیے آپ ہیں۔
قصہ مختصر عیدالاضحٰی کے موقع پر حضرت اسمٰعیل ؒ کا عمل بتا کر ہمارے خطیب حضرات مجمع میں موجود والدین کی خوشنودی تو حاصل کرلیتے ہونگے لیکن حقیقی پیغام نہیں پہچاپاتے۔ اِس عید کا حقیقی پیغام یہ ہےکہ اولاد کی محبت اللہ کی محبت کے راستے میں آئے تو اولاد شرک ہے اور شرک ظلم عظیم ہے۔ اور ویسے بھی ایک عام فہم سی بات ہے کہ حضرت اسعماعیل ؑ کی عمر تو اس وقت فقط آٹھ سال تھی جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی عمر اسّی سال تھی۔ کیا ہمیں آٹھ سال کے بچے کی سنت پر عمل کرنے کا درس دیا جانا چاہیے یا اسّی سالہ بزرگ پیغبرخدا کی سنت پر؟ اور ابراہیم کی تو یہ سنت ہے کہ نسل، خون، قبیلہ یہ سب خدا کی محبت کےسامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“