وحی کے موضوع پر ’’فیس بک مکالمہ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحی ایک ذریعۂ علم ہے۔ عقل ایک اور ذریعۂ علم ہے۔ عقل سےحاصل ہونے والے علم کو انکار ہے کہ وحی ذریعۂ علم ہے۔ لیکن وحی سے حاصل ہونے والے علم کو انکار نہیں ہے کہ عقل بھی ذریعۂ علم ہے۔ ان میں سے ایک ’’خدا سے بندے کی طرف علم کا سفر ہے اور دوسرا بندے سے خدا کی طرف‘‘۔ عقل کو انکار ہے ہی اسی لیے کیونکہ اسے خدا سے بندے کی طرف وصول ہونے والے علم کے سُراغ آسانی سے نہیں ملتے۔ حالانکہ کچھ دیکھنے والوں کو آسانی سے مل بھی جاتے ہیں۔ ثابت ہوتاہے کہ جن کو نہیں ملتے یا تو وہ اپنے سمع و بصر پر تالے مار کر بیٹھے رہتے ہیں اور یا پھر بقول اقبال،
’’یوں بھی بعض طبائع میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وارداتِ باطن کی اس مخصوص نوع کو ، جو مذہب کے لیے ایمان و یقین کا آخری سہارا ہے، ویسے ہی اپنےتجربے میں لائیں جیسے زندگی کے دوسرے احوال اور اس کائنات کو جسے ہم اپنے آپ سے بیگانہ پاتے ہیں، اپنے اندر جذب کرلیں‘‘ (دیباچہ خطباتِ اقبال)
اس موضوع پر مغربی فلاسفہ میں ہنری برگسان کو پڑھنا بھی بہت مفید ہوسکتاہے لیکن افسوس کہ برگسان وہ فلسفی ہے جسے اہل ِ مغرب نے لگ بھگ بالکل ہی نظر انداز کررکھاہے۔
۔۔
احمد خلیل
جن طبائع میں وارداتِ باطن کی اس مخصوص نوع کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، اُن کو کسی دوسرے کی وارداتِ باطن کے بارے میں کیا رائے رکھنی چاہیے؟ اس وارداتِ باطن کی بنیاد پر آسمانی مذاھب کی عمارت کھڑی ہے۔ کس کی واردات ِ باطن کو درست سمجھا جائے گا؟
۔۔
ادریس آزاد
انہیں دوسروں کی وارداتِ باطن کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہی درست طریقہ ہے لیکن کسی کی وارداتِ باطن سےحاصل ہونے والے علم سے متعلق یہ رائے نہ رکھنا چاہیے کہ یہ جھوٹ ہے۔ کیونکہ یہ اپنے پاس کوئی گنجائش نہ چھوڑنے والی بات ہے۔ کسی وقت، کسی بھی انہونی کو قبول کرنے کی گنجائش دل میں رکھناہی درست عمل ہے۔ ذہن کو بعض سمجھ میں نہ آنے والی چیزوں کے لیے مقفل رکھنا جہالت کے مترادف سمجھا جانا چاہیے۔
۔۔
احمد خلیل
مذھب کے احکامات اور جواب دہی کا تصور ایک شخصیت کی اسی باطنی واردات پر مبنی ہے۔ میں اس باطنی واردات کی تصدیق کا مکلف کیوں ہوں مذھب کے نزدیک؟ میں اس واردات کو جھوٹ بھی نہیں کہتا ، لیکن مذھب کو وہ "حقائق "منوانے پر اصرار کیوں ہے جو ایک پندرہ سو سال پرانی شخصیت پر ہی منکشف ہوئے؟
۔۔
ادریس آزاد
کیونکہ میں نیچرل سائنس کی بے شمار باتیں فقط گواہوں کے کہے کی وجہ سے مانتاہوں۔ اس لیے مجھے سوشل سائنس کی بھی بہت سی باتیں گواہوں کی وجہ سے ماننا چاہییں۔
مثلاً میں نے آج تک خود مشاہدہ نہیں کیا کہ زمین گول ہے۔ ہمیشہ دوسروں کی گواہی پر بھروسہ کیا ہے۔ یہ نیچرل سائنس کے سائنسدانوں کےدعوے کو قبول کرنے کا میرا طریقہ ہے تو سوشل سائنس کے کسی سائنسدان کے دعووں کو قبول کرنے کا میرا یہ طریقہ کیوں نہ ہو؟
(درمیان میں عظیم عاصم مغل نے ناسا کی کوئی ویڈیو شیئر کرکے فرمایا، زمین کا گول ہونا یہاں ملاحظہ کرسکتےہیں۔ جس پہ نے عرض کی، یہ بھی تو کسی کا کہا ہوا ہے، یعنی کسی کی گواہی ہے)
۔۔
احمد خلیل
سائنسدانوں کے تجربات اور مشاہدات کسی ایک فرد کی باطنی واردات نہیں ہے، جسے باقی آنکھیں بند کر کے مانتے ہیں۔ ہم نے بیالوجی میں پڑھا کہ ایک چیز ہوتی ہے ڈی این اے۔ پڑھ کر یقین کیا۔ لیکن اس ڈی این اے کا ہزاروں سائنسدان لیبارٹری میں روز تجزیہ کرتے ہیں۔ تو سائنسدانوں کے اس تجربے میں شامل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، مذھبی واردات ایک شخص کے بیان پر مشتمل ہے۔ میں اگر کہوں کے بھائی صاحب مجھے بھی اس باطنی واردات کا حصہ بنائیے، تو وہ " اللہ جس کو چُن لیتا ہے" والی آیت سنا کر سائیڈ پر ہو جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ سائنسدان جو باتیں کہتے ہیں اس کو نا ماننے پر کوئی وعید نہیں ہے۔ زمین کے چپٹے ہونے پر دلائل دئے جاتے ہیں، سوسائیٹز بنی ہوئی ہیں، کسی سائنسدان نے وعید نہیں سنائی کہ بھائی ہمارے مشاہدات کو جھٹلاتے ہو ، کل کو سزا بھگتو گے۔
۔۔
ادریس آزاد
’’آنکھیں بند کر کے مانتے ہیں۔ ہم نے بیالوجی میں پڑھا کہ ایک چیز ہوتی ہے ڈی این اے۔ پڑھ کر یقین کیا۔ لیکن اس ڈی این اے کا ہزاروں سائنسدان لیبارٹری میں روز تجزیہ کرتے ہیں۔ تو سائنسدانوں کے اس تجربے میں شامل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، مذھبی واردات ایک شخص کے بیان پر مشتمل ہے۔ میں اگر کہوں کے بھائی صاحب مجھے بھی اس باطنی واردات کا حصہ بنائیے، تو وہ " اللہ جس کو چن لیتا ہے" والی آیت سنا کر سائیڈ پر ہو جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ سائنسدان جو باتیں کہتے ہیں اس کو نا ماننے پر کوئی وعید نہیں ہے۔ زمین کے چپٹے ہونے پر دلائل دئے جاتے ہیں، سوسائیٹز بنی ہوئی ہیں، کسی سائنسدان نے وعید نہیں سنائی کہ بھائی ہمارے مشاہدات کو جھٹلاتے ہو ، کل کو سزا بھگتو گے‘‘
بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ ایک قسم کی سائنس پر آپ نے لکھ دیا۔ میری اینالوجی کو نظرانداز کردیا۔ ایک اور بھی سائنس ہے آج کل ۔ اکیڈمک سطح پر ہی ہے۔ مثلاً پاکستان میں بھی ایم ایس سی سوشیالوجی کی ڈگری دی جارہی ہے۔
۔۔
احمد خلیل
آپ کی اینالوجی کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے پہلے حصے ( سائنسدانوں کی کہی باتوں کو ہم کیسے مانتے ہیں؟) کا تھوڑا تجزیہ کیا ہے۔ آپ اگر سائنسدانوں کی بات اس لئے مانتے ہیں کہ بہت سے گواہ ہیں اس چیز کے تو ابتدائی درجے میں یہ بات درست مانی جا سکتی ہے۔ لیکن سائنس ( نیچرل سائنس )کی کہی باتوں کو ہم نے پڑھ کر ماننے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتوں کی خود سے عملی تصدیق بھی کی ہے۔ ( میٹرک سے شروع ہوئے تجربات سے لیکر میڈیسن کی پڑھائی اور پریکٹس کے تجربات انہی پڑھی باتوں کی تصدیق ہیں)۔ یہ عملی تصدیق ہی اس بات کو مجھ سے منواتی ہے کہ سرن میں اگر چند سو سائنسدانوں نے کوئی ہگز بوزان نامی ذرہ detect کر لیا ہے تو ضرور یہ تجربہ ہوا ہو گا جس میں کبھی میں بھی شامل ہو سکتا ہوں۔
دوسری طرف مذھبی باطنی واردات ہے۔ جس کی بنیاد پر آپ چند چیزوں کو مانتے ہیں۔ آپ کے نزدیک آپ یہ باتیں گواہوں کی وجہ سے مانتے ہیں۔ یہ گواہان کون ہیں ، وضاحت طلب بات ہے۔ ہر مذھب اور فرقے کا ماننے والا جہاں پیداہو ، اپنے ماں باپ سے ملنے والے عقائد کو لے کر چلتا ہے آگے۔ (اکثر و بیشتر)۔ اب ان عقائد کو جن کی الٹیمیٹ بنیاد ایک شخصیت کے باطنی تجربات پر ہے، آپ کن گواہان کی وجہ سے مانتے ہیں ؟
۔۔
ادریس آزاد
اولاً یہ گواہ اس صاحب ِ واردات کے کردار کے عینی شاہدین ہوتے ہیں۔ ثانیاً اس صاحب واردات کے تجربات کے نتائج بطور شہادت موجود ہوتے ہیں۔ بعینہ وہی طریقہ جو اوپر آپ نے ابھی بیان کیا یعنی،
’’آپ اگر سائنسدانوں کی بات اس لئے مانتے ہیں کہ بہت سے گواہ ہیں اس چیز کے تو ابتدائی درجے میں یہ بات درست مانی جا سکتی ہے۔ لیکن سائنس کی کہی باتوں کو ہم نے پڑھ کر ماننے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتوں کی خود سے عملی تصدیق بھی کی ہے‘‘
۔۔
عبدالرّزّاق
مذھبی تجربہ جسے آپ وارداتِ باطن کہ رہے ہیں اس کی صحیح تر ہونے کی کوئی نص و دلیل یا کن تصدیق شدہ ذرائع سے اس کی تنزیل ہوتی ہے ۔ رہنمائی فرما دیجیئے!
۔۔
ادریس آزاد
یہ بڑا دلچسپ سوال ہے کیونکہ اس کا جواب اپنی نوعیت میں ایک خاص قسم کی سائنس سے جُڑاہے۔ وہ ہے فرد کے کردار کا معروضی مطالعہ۔ اگر کوئی شخص کسی قسم کی وارداتِ باطن سے گزررہاہے تو ضرور گزرسکتاہے لیکن اس بات کا تعین کہ وہ خدا کی وحی حاصل کرپارہاہے قطعی طورپر اس کی ذاتی، عملی اور نجی زندگی میں اس کے عمل اور کردار کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا گیاہے۔ چونکہ کسی اور کی وارداتِ باطن پر شک کرنا ضروری ہے اس لیے جس شخص پر واردات گزری اس کی کہی ہوئی بات کے سچے یا جھوٹے ہونے کے لیے اس کی زندگی میں اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کو دیکھنا ہوگا۔ اور چونکہ گواہی لینے کا عمل عین سائنسی، استقرائی طریق کار اور کوانٹیٹیٹِو ریسرچ کا مسئلہ ہے اس لیے کسی کی صداقت پر گواہوں کا سیمپل جتنا بڑاہوگا، اس کے دعوے میں صداقت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہونگے۔ یہی وہ مقام تھا جب ایک انگریز فلسفی نے، جس کا نام مجھے بھول گیا، لکھا کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ محمد (ﷺ) جھوٹ بول رہے تھے لیکن میں یہ تو سوچ سکتاہوں کہ انہیں سُوئے اعصاب (یعنی تشنّج یا فالج وغیرہ) جیسا کوئی مرض تھا اور جس کی بدولت ان کو اپنے اوہام وحی محسوس ہوتے تھے‘‘۔ اس جملے پر علامہ اقبال نے لکھا، ’’یہ کیسا سُوئے اعصاب تھا جس نے ایک عالم کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ قدیم توھمات کو بیخ و بن سے اُکھیڑدیا اور دنیا کو سائنس اور استقرائی طریقِ کار کے ایسے راستے پر ڈال دیا کہ آج دنیا کی تمام تر تہذیبی ترقی اسی ایک شخص کی وحی کی مرہون ِ منت ہے اور اگر یہ سُوئے اعصاب ہے توپھر ایسا سُوئے اعصاب، ابھی بطور سُوئے اعصاب ماہرین ِ نفسیات کو سمجھ ہی نہیں آیا چنانچہ انسان کو ابھی علم نفسیات میں نئی اور تازہ لیبارٹریوں کی ضرورت ہے جو ایسی وارداتِ ذہنی کا بھی مطالعہ کرنے کی اہل ہوں‘‘ (مفہوم)
چنانچہ وحی شیطانی ہے یارحمانی، اس کو جانچنے کا ایک ہی اصول مقرر کیا جاسکتاہے،
’’کسی کی وارداتِ باطن اس شخص کے ذاتی کردار کے ساتھ براہِ راست متناسب ہے‘‘ اس کا کردار صادق والامین کا ہے تو واردات کے بیان میں صداقت اور امانت کے مواقع زیادہ ہیں۔ اور براہِ متناسب اس لیے ہے کہ جتنا کردار بلند یعنی کردار پر گواہی کا سیمپل بڑاہوگا صداقت کے مواقع اتنے ہی زیادہ ہونگے۔ جتنا کردار برا اور کذّاب ہوگا صداقت کے مواقع اُتنے ہی کم ہونگے۔
۔۔
عبدالرّزاق
مگر یہ تو بڑا سیدھا سا سوال تھا جس کو قرآن نے بڑے شد و مد سے سورة شوریٰ میں بیان کردیا تھا جب فرمایا گیا کہ کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ سے کلام کرے ماسوائے وحی سے(جیسے شہد کو اور مریم کو وحی کی گئی )، کسی اوٹ کے ذریعے سے کلام کرے، جیسے موسیٰ سے کلام کیا تہا، یا یہ کہ کسی نبی کو ذریعے جیسے عام انبیاء کرام آتےگئے اور ان کو جبرائیل امین کے توسط سے اپنے احکام پہچادیے ۔
اس آیت سے اللہ سے کلام کے تین طرائق اخذ کیے جاسکتے ہیں رویا جسے علامہ رحہ تو مذھبی تجربہ اور آپ واردات باطن قرار دیتے ہیں جو کہ اللہ سے کلام کی پہلے قسم ہے۔ وحیُ رویاجسے براہ راست وحی اتارنا، کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں سے ہم کلام ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ غیر مختتم رہے گا۔
اس رویت کی صداقت کے متعلق ہمیشہ سے یہ اشتباہ رہتا ہے اور رہیگا کہ اگر کسی کو مذھبی تجربہ ہوا بھی ہے تو کیا وہ رویاء صادقہ ہے کہ نہیں۔ یہ اشتباہ و اشکال اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ باقی دو وحیوں کی طرح یعنی موسوی کلام جس کی شرف و فضیلت کی ضرورت اب پیدا ہونے سے رہی اور تیسری وحی کا سلسلہ جو جبرائیل امین انبیاء و رسل کے لیے لاتے تہے خاتم النیین کے بعد مختتم سی ہوگئی، رویاء وحی جو کہ براہ راست الہام و کشف اور رویت ہوتی ہے جس کے تحفظ کا احتمال نہیں رکہا گیا کیونکہ اس سلسلہ وحی کو جاری و ساری رہناتہا۔ اس نوعیت کی وحی میں تحفظ نہ ہونے کی بنا پر تخصیص یا آمیزش کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ جنات و شیاطین اس رویاء وحی کو اچکنے کے لیے ہر وقت منتظر رہتے ہیں ۔
رویاء وحی میں تخصیص و آمیزش ہونے کی بنا پر اس کی خلط ملط ہونے کا امکان رہتا ہے۔ وحیُ رویا جس انسانی قلب پر وارد ہوتی ہے خلقی بعد ہونے کے باعث وہ انسان اس الہام و کشف کی بیان و تعویل سے عاری ہوجاتا ہے بلکہ زبان ہی گنگ ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس مشاہدے کو مکمل طور پر جذب کرلیتے اور زبان نہ کہلنے کے باعث مجذوب کہلاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس مذھبی تجربے کو عامةالناس کے سامنے آشکار کردے تو وہ منصور بن حسین الحلاج بن جاتے ہیں ۔
مذھبی تجربے کے متعلق علامہ رحہ ایک جید صوفی عبدالقدوس گنگوہی کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہ محمد صہ ہی کی ذات گرامی تہی کہ معراج کے دوران رویتِ ایزدی کے بعدمحمد صہ نے مراجعت کو ترجیح دی، خدا کی قسم اگر محمد صہ کی جگہ میں ہوتا تو واپس لوٹنے کا تصور بھی نہی کرتا ۔ علامہ کے مطابق یہ جملا تاریخ تصوف کا عظیم ترین جملا ہے جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی ۔ علامہ محمد صہ کی مراجعت کے متعلق فرماتے ہیں کہ چونکہ آپ صہ سالک تہے اور سالک کا کام عام انسان کے لیے ایک سلوک دینا اور چہوڑنا مستلزم ہوتا ہے اس لیے مذھبی واردات بعد آپ صہ نے مراجعت اختیار کی۔
۔۔
ادریس آزاد
خوبصورت!
’’محمد عربی برفلک الافلاک رفت و باز آمد وللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیامدے‘‘ خواجہ عبدالقدوس گنگوہی ؒ
۔۔
عدیل حسن
عقل کے حوالے سے جب ہم منطق کا تعین کرتے ہیں تو فکر ایک محسوس طریقے سے نتائج نکالتی ہے ۔وحی کو ذریہ علم تسلیم کر کے اس باطنی تجربے کو کیسے پرکھ سکتے ہیں ؟ کون سی وحی درست ہے اور کون سی نہیں ؟
۔۔
دیسی منٹو
Through pragmatism
۔۔
عدیل حسن
نہیں ہو سکتا۔ باطنی تجربے کی نہ کوئی حدود ہوتی ہیں نہ تعین۔
۔۔
مراد سوات
ثابت شدہ سائنسی قوانین سے "وحی" کو پرکھنا بھی بہتر ہے ۔
۔۔
عدیل حسن
مراد صاحب ثابت شدہ سائنسی قوانین کو "باطنی تجربے پر کیسے لاگو کریں گے ۔؟؟؟
۔۔
مراد سوات
عام انسانوں کی باطنی تجربات تو مجھے چیک کرنا مشکل لگتے ہیں البتہ قرانی آیات میں جہاں سائنسی گفتگو ہوئی ہو وہاں تصدیق شدہ سائنسی اصولوں سے موازنہ کی جائے۔ہم (یعنی عام انسان ) باطنی تجربہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بات مجھے بھی مشکل لگ رہی ہے۔لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ یہ قران، ایک پیغمبر کا دعوی ہے کہ یہ اُس پر نازل ہوا ہے اور یہ خدا کا کلام ہے۔اب میں اس دعوی کی تائید یا رد کیسے کرو ں؟ تو بہتر یہ ہے کہ جہاں اس قران میں کوئی سائنسی گفتگو ہوئی ہو اگر یہ خدا کا کلام ہے تو ظاہری بات ہے اس میں غلطی ممکن نہیں ہے۔اگر کسی فرد کا کلام ہوا تو ظاہر ہے فلاسفرز اور سائنس دانوں کے کافی علمی تجزیئے غلط بھی ہوتے ہیں تو اس فرد کے کلام میں بھی سائنسی اغلاط ہونگی۔البتہ تصدیق شدہ سائنسی حقائق دیکھنے چاہییں کیونکہ سائنس بھی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غلط سائنسی تحقیق کر سکتی ہے۔
اس لیے جتنا ممکن ہو سکے اس قرانی مذہبی واردات یا کلامِ خدا کو ہم عقل کی بنیاد پر کسی نہ کسی درجے کی پرکھ تو کرنے کی کوشش کریں۔اگر ہماری تصدق شدہ سائنس سے انحراف نہ ہو رہا ہو ۔تو پھر یہ بات قرین قیاس ہے کہ موت کے بعد زندگی ، خدا کی موجودگی سب کچھ درست ہے البتہ ان تک عقلی رسائی تاحال ممکن نہیں ہے ۔
۔۔
دیسی منٹو
ولیم جیمز کے خیال میں وجدان اور وحی کی صداقت کا معیار صرف پریگمیٹک ٹیسٹ ہے۔
مدون: ادریس آزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“