الم تڑم لم ڈھینگ چپُختے ٹھاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ڈھائی بجے ایک چھوٹے شہر کے چھوٹے سے حلقے میں ایک بہت چھوٹے لیڈر کی لائیوتقریرسن رہاتھا اور بار بار ٹیکنالوجی کو داد دے رہا تھا کہ ’’دیکھوتو! کیسے یہ چھوٹا سا انتخابی اُمیدوار ابراہم لنکن جیسے کتنے ہی عظیم حکمرانوں سے کہیں زیادہ طاقتور آواز اور رسائی رکھتاہے‘‘۔
اس پر مستزاد جب مجھے یہ خیال آیا کہ عین اُسی حلقے میں لوگ اپنے گھروں کے اندر بیٹھے اپنے موبائیلوں پر یہ تقریر سن رہے ہونگے، انتخابی اُمیدوار اور مجمعے کو دیکھ رہے ہونگے تو مجھے بے چینی سی ہونے لگی۔ یہ عجب سی بے چینی تھی جس کا کوئی نام نہیں تھا اور جو ابھی تک جُوں کی تُوں طاری ہے۔
آج صبح نماز کے بعد ہم باپ بیٹے واک کے لیے نکلے تو باتوں باتوں میں گاڑیوں کا ذکر چھڑگیا۔ اسد نے بتایا کہ کسی گاڑی کا ائربیگ ایک بارکھل جائے تو دوبارہ ویسے نصب نہیں کیا جاسکتا جیسے پہلی بار کیا گیاہوتاہے۔ میں نے پوچھا، ’’یارا! یہ اتنی سپیڈ کے ساتھ کیسے انفلیٹ ہوجاتاہے؟ مثلاً ایک گاڑی سوکلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے آرہی تھی اور سامنے سے ایک ٹرک کے ساتھ ٹکرا گئی۔ تب بھی ائربیگ انفلیٹ ہوجاتاہے۔ گویا سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں۔
دوپہر میں داڑھی سیٹ کروانے جانا تھا۔ گرمی کی شدت دیکھ کر ارادہ منسوخ کیا تو شاہ صاحب گھر پر آگئے۔ آتے ہی پھٹ پڑے، ’’سکستھ روڈ سے گرفتاری دینے کا کیا مقصد؟‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں نے پوچھا، ’’کس نے دی؟‘‘۔ کہنے لگے ’’کیپٹن صفدر نے‘‘۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب! فوج کے خلاف بہت بڑی کمپین چل رہی ہے۔ حضور! کون سا آزاد ملک ہے جہاں فوج کی طاقت سول طاقتوں پر بھاری نہیں ہے؟ کیا امریکہ میں نہیں ہے؟ جن ملکوں کی فوج نہیں یا فوجی طاقت سول طاقتوں پر غالب نہیں، وہ ملک آزاد بھی تو نہیں ہیں نا؟‘‘ شاہ صاحب دیدے پھاڑے مجھے تکنے لگے۔ کچھ دیر بعد بولے، ’’میں کیا بات کررہاہوں، تم کیا بات کررہے ہو؟ اس بات کا کیا مطلب ہوا؟‘‘ میں نے دستہ بستہ عرض کی، ’’معافی چاہتاہوں۔ آج کل دماغی حالت ٹھیک نہیں ذرا۔ کل بھی ایسا ہوا۔ شاید ساون کا اثرہے‘‘
اوررشید ایک سادہ سا کپ لے آیا۔ کہنے لگا، ’’سرجی! اس میں چائے پئیں! ابھی!‘‘ میں نے لاکھ پوچھا لیکن اُس نے اصرارکیا کہ ’’بس آپ چائے پئیں!‘‘ سو پینا پڑی۔ جونہی چائے کپ میں ڈالی، کپ پر میری تصویر بن گئی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“