شاعری ہو یا نثر ادب کی یہ دونوں اصناف ہی انسانی شخصیت کے پردوں کو چاک کرتی ہیں۔انہی افکار اور خیالات کے توسط سے نہ صرف انسانی جذبات آشکار ہوتے ہیں بلکہ ایک شاعر اور ادیب کے علمی و ادبی قد کا ادراک کرنے میںبھی آسانی رہتی ہے۔
اقبال کا تصور ِ ملت ایک انقلابی نعرہ یا جذباتی فیصلہ نہیں جسے اقبالؒ کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو ۔اور نہ ہی اقبال ملت کے اس تصور کا خالق ہے۔اقبالؒ سے پہلے ایک مردِ غیب جمال الدین افغانی نے ملت کی ایک عملی شکل سامنے رکھ دی تھی۔انہوں نے ۱۸۵۸ء میں مکہ میں اُم القریٰ کی بنیاد رکھ دی تھی ۔جو ایک مسلم بین الا قوامی اسمبلی تھی۔جو مسلمانوں کی پست سیاسی حالت اور سیاسی غلامی کے خلاف ایک احتجاج تھا اور یہ خیال تھا کہ نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک ِ کاشغر سب مسلمان حرم کی پاسبانی کے لیے متحد ہوجائیں گے۔
مگر یہ صور عملی صورت اختیار نہ کرسکا ۔اور جمال الدین افغانی اپنے اس سیاسی اور فکری مسلک میں اس لیے ناکام ہوئے کہ حالات کے اُبھرتے ہوئے طوفان ان کے سامنے کوہ گراں بن کر کھڑے ہوگئے۔جس کی وجہ سے وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوئے مگر بیسویں صدی کے اُس مردِ آہن کے ہاتھ میں وہ قوتِ حیدری عطا کی گئی کہ ان کے دل و دماغ کے چراغ روشن کر کے ملت ِ اسلامیہ کے تصور کو ابدی حیات بخش دی۔
اور جب اقبال ؒ کے ذہن میں ملت کا تصور اُبھرا۔اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمار جسم کی سی تھی۔جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار ریاستیں نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک مُڑے تُڑے تاش کے پتے کی سی تھی۔ایران کے شمالی حصوں پر روس اور جنوبی حصوں پر برطانیہ کی حکمرانی تھی ۔افریقہ اور مصر پریورپی اقوام قابض تھیں۔افغانستان کے والی یوں تو امیر کہلاتے تھے ،مگر ان کی حیثیت وظیفہ خوار اور نوابین ِ اودھ سے زیادہ نہ تھی۔انڈونیشیا ولندیزیوں کے زیر سایہ سیاسی بیداری سے بے خبر تجارتی کاموں سے زیادہ مصروف تھا۔اور ہند میں مسلمان اقلیتوں کی زندگی بسر کررہے تھے۔
اسی حالت میں اقبالؒ کا تصورِ ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کا حامل ہے۔اور وطن دوستی کے شیدائی اقبال کے دیکھا کہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پر ظلم کررہی ہیں۔تو اقبالؒ وطنیت کے اس فلسفی پہلو سے متنفر ہوگیا۔میں نے اقبالؒ کی وطن دوستی کا ذکر کیا ہے ۔وطن پرستی نہیں کی۔بلکہ اس وطن دوستی کا ثبوت دیا ہے کہ وطن دوستی ہونی چاہیے۔مگر اس وطن دوستی کی انتہا وہ نہیں کرنا چاہتا۔وطن کا مثبت پہلو وطن دوستی ہے۔جیسے اقبالؒ چاہتا تھا۔اور وطنیت کا منفی پہلو وطن پرستی ہے۔جسے اقبالؒ نے نفرت کی ،اور کہا
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوام ِ جہاں میں ہے رقابت تو اس سے
تسخیر ہے مقصود ِ تجارت تو اس سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اس سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اس سے
قومیت ِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
جہاں تک اقبال ؒ کے تصور ِ ملت کے تعلق ہے ۔اقبالؒ خود فرماتے ہیں :۔
ــ’’اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتا ہے۔اور اس کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے۔جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت ِاشخاص ہے۔جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔اسلام کی زندگی کا انحصار کسی قوم کے حصائل مخصوصہ و شمائل مختصہ پر نہیں ہے۔غرض اسلام زمان و مکان کی قیود سے مبّرا ہے۔
اقبالؒ کے ہاں ملت اسلامیہ کا تصور جغرافیائی نہیں ، سیاسی نہیں ، بلکہ یہ تو سراسر رومانی اور مذہبی یگانگت ہے،جو دلوں کے قریب ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔اور جس کی اساس محض مذہب اسلام ہے ،رنگ و نسل ،جغرافیائی حدود،سیاسی حالت محض انسانی حیثیت رکھتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کا تصور ایک بھٹکا ہوا خیال نہیں۔یا ایک افلاطوں کی جمہوریت یا سر تھا مس مور کا یو ٹوپیا کی دماغی عیش و عشرت نہیں،بلکہ یہ ایک زندہ اور اٹل حقیقت ہے ،اور اس کے حصائل ملت اسلامیہ کے اجتماعی جغرافیائی حدود ،وطن ،میں اور ریزہ ریزہ جہاں مسلمان جزیروں کی مانند پھیلے ہوئے ہیں، موجود ہیں۔
اقبال ؒ نے ملت اسلامیہ کا خاکہ تیار کیا ہے،ان کے نزدیک ملت کی سب سے بڑی خصوصیت ایک مرکز ہے،مرکز کی وجہ سے ملت کا شیرازہ نہیں بکھرتا۔بلکہ ملت کی عمارت مرکز ہی کے ستونوں پر قائم رہتی ہے۔
حلقہ ر ا مرکز چوں جان در پیکر است
خط او در نقطہ از مظمر است
قوم را ربط و نظام از مرکزے
روز گارش را دورم ا ز مرکزے
اور اس کے ثبوت میں اقبالؒ نے یہودیوں کی حالت ِ زار پیش کی ہے۔کہ کس طرح مرکز کی عدم موجودگی میں ان کی حالت کیا ہوئی۔
عبرتے اے مسلم روشن ضمیر
از مآل امت ِ موسیٰ بگیر
واچوں آں قوم مرکز راز دست
رشتہ جمعیت ملت شکست
ملت کے سامنے کوئی منزل نصب العین ہونا چاہیے ۔تاکہ منزل کے حصول میں جو شاہراہ اختیار کی جائیں۔ان میں اجتماعیت کا عنصر شامل ہو۔اور یہ منزل کیا ہے،اسلام کا نصب العین۔اور سب کا نصب العین ایک ہوتو جو یک رنگی یا یگانگت پیدا ہوگی۔وہ سب کی بہتری کے لیے ہو گی۔
قوم ر ا ا ندیشہ باید یکے
در ضمیرش مدعا باید یکے
جذبہ باید د ر ضمیر او یکے
ہم عیار خوب و زشت او یکے
ملت از یکرنگی دلہا ستے
روشن از یک جلوہ ایں سینا ستے
ملت کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس ملت کا فقط مذہب اسلام کی وجہ ہوگا۔اس میں ملک ،رنگ و نسل کی پابندیوں کی قید نہیں ہوگی۔اور اس میں ملت کی عالمگیریت مضمر ہے۔اس ملت میں بلا امتیاز گورے کالے،مشرقی مغربی ایک باہمی رشتے میں منسلک ہوتے ہیں۔
درویش ِ خد ا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میر ا نہ د لی نہ صفاہاں نہ سمرقند
اور مجوزہ ملت میں جو اسلامی معاشرے میں موجو بھی ہے۔مساوات، اخوت اور حُریت جیسی نعمتیں عام ہوں گی۔تاکہ محمود و ایاز اور آقا وغلام میں کوئی فرق نہ آئے۔
اقبال کے نزدیک ملت محض ایک فیشن نہ ہو کہ اس میں ڈارون کا فلسفہ ''STRUGGLE FOR LIFE''ہو۔یا نٹشے کا مردِ کامل اس سوائٹی میں جبر کے ذریعہ انصاف کا دور دورہ کرے۔بلکہ اقبالؒ کے یک ملت ،انسانیت و اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہو۔سچائی ہو ۔شرافت ہو۔اس میں لوٹ کھسوٹ اور بداخلاقی سے نفرت ہو۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...