شو کمار سے زیادہ فیمینسٹ آواز پنجاب کے خطے میں اور کوئی دکھائی نہیں دیتی۔۔وارث شاہ نے "ہیر" میں ہیر کو بطور مزاحمت کا استعارہ پیش کیا ہے۔قصے کا نام " ہیر" ہی اس بات کو واضح کررہا ہے۔
شو کمار نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے " لونا " میں لونا کو آواز عطا کی ہے۔" لونا " میں شو کمار اپنے تخلیقی سفر کی اوج پر نظر آتا ہے، جدید ڈرامہ ہونے کے باوجود اسے یونانی و وکٹورین دور کے کسی بھی عظیم ڈرامے کے ساتھ باآسانی رکھا جاسکتا ہے۔پنجابی sophocles اور آسکر وائلڈ کو تو پڑھ لیتے ہیں، اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں مگر اپنے خطے اور اپنی زبان کے عظیم شاعروں اور ادیبوں کو پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔تمسخر اڑاتے ہیں۔
قصہ پورن بھگت کو ہمیشہ سے میل پرسپیکٹو میں دیکھا جاتا تھا۔جس میں لونا اپنے ہی سوتیلے بیٹے پورن سے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہتی ہے۔پورن کے انکار پر پورن کے باپ کے سامنے پورن پر تہمت لگاتی ہے۔پورن کا باپ اس کے ہاتھ پاوں توڑ کر کنویں میں پھینک دیتا ہے۔پنجاب میں پورن کو ہمیشہ معصوم اور پوتر سمجھتے ہوئے لونا کو قصوروار اور دوشی کہا جاتا رہا ہے۔۔لونا ایک کم عمر لڑکی یے جس کی شادی پورن کے باپ سے تقریبا زبردستی کردی جاتی یے۔پورن کا باپ سلوان سیالکوٹ کا راجہ ہے۔وہ لونا سے شادی کے بعد لونا کی ناقابل برداشت سیکس کی خواہش کو پورا نہیں کرپاتا جس سے لونا کے اندر جنسی گھٹن اور ہیجان بڑھ جاتا ہے۔اسی لیے وہ اپنے سوتیلے بیٹے پورن سے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہتی ہے۔شو کمار پورن کی ماں یعنی راجہ کی پہلی بیوی کی آواز کو بھی بلند کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ عورت کے لیے یہ ہرگز قابل قبول نہیں کہ اس کا شوہر وہ کسی کے ساتھ شئیر کرے۔دوسری طرف لونا کی آواز کو بھی بلند کرتا ہے جس کے باپ نے اسے راجہ سے اس کی مرضی کے خلاف بیاہ دیا۔۔
شو نے اس ساری روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اخلاقیات اور مذہب کے احکامات کو زیر بحث لانے کے بجائے جنسیات اور اس کے نفسیاتی پہلووں کو اجاگر کیا ہے۔ساتھ ساتھ اس نے پہلی بار غربت ، جنسی ناآسودگی ، عمروں کے تفاوت، مردانہ برتری اور آزادی نسواں جیسے موضوعات پر مفصل خیالات پیش کیے ہیں۔
شو کی لونا اپنی بجھتی ہوئی جوانی کی آگ کو دیکھ کر اپنے باپ کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔اپنے ہمسفر کے انتخاب کا حق اسے کیوں نہیں دیا گیا۔شو کی لونا جرات کے ساتھ کہتی ہے کہ میں پورن کی ماں کیسے ہوسکتی ہوں۔پورن مجھ سے تھوڑا سا چھوٹا ہے۔میں نے پورن کو اپنی کوکھ میں نہیں پالا۔میرے پورن کی ماں ہونے میں صرف ایک بوسے کا فرق ہے۔اس بوسے کے بعد میں اس کی ماں نہیں رہوں گی۔
راجہ سلوان کی پہلی بیوی یعنی پورن کی ماں بھی پنجاب کے پدرسری معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہاں مرد میں لاکھوں خامیاں بھی ہوں تو بھی اسے خدا کا درجہ دیا جاتا ہے۔جبکہ عورت میں جتنی بھی خوبیاں ہوں اسے مرد کی غلام بن کر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔۔
شو کا پورن بھی معصوم بن کر ہمدردیاں نہیں سمیٹ رہا۔۔بلکہ خود پر ہوئے ظلم کے بعد بھی یہی دعا کرتا ہے کہ مجھ پر ہونے والے ظلم کے بعد میری خواہش ہے کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو کسے بے جوڑ رشتے میں نہ باندھے تاکہ پھر کسی بیٹے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔کوئی باپ اپنی بیٹیوں جیسی سے شادی نہ کرے۔
شو کمار بٹالوی اسی لیے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس ڈرامے کو قصہ پورن بھگت کہنے کی بجائے " لونا " کا نام دیتا ہے۔۔
میرے شو کمار ، مجھے افسوس ہے کہ کوئی تیری قدر نہیں پہچان سکا۔یہاں بڑا ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر اور جدوجہد کا استعارہ ماوری سرمد ہے۔۔تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔کیونکہ تو ایک جذباتی شاعر کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔