میاں جاوید لطیف! بہنیں بھی سانجھی ہوتی ہیں….
ایک گہرے کنویں میں پتھر اچھالیے اور کان لگا کر سنیے۔ پتھر تہہ سے ٹکرانے کی آواز آئے تو اچھالنے سے لے کر ٹھہرنے کے وقت سے گہرائی کا اندازہ کر لیں پر کیا ہو گر یہ آواز آئے نہ۔ ایسا ہو تو سمجھ لیجیے کہ پتھر اب پاتال کے سفر پر ہے اور اب پاتال لوک میں جا تھمے تو تھمے جہاں بدروحوں کے ڈیرے ہیں۔ راکھشسوں کی گپھائیں ہیں اور آگ اگلتے ناگوں کے بل ہیں۔ ہمارے اہل سیاست کے چلن، ان کے اخلاق اور ان کی رکیک زبانی کا سفر بھی ایسا ہی ہے۔ اس سفر میں تاہم جو حصہ میاں جاوید لطیف نے ڈالا ہے اس نے برسوں کی مسافت کو لمحے میں پاٹ ڈالا ہے۔ اس سے آگے حریف خرام ہونے کے لیے جو دریدہ دہنی درکار ہے دیکھیے اس کا حوصلہ اب کون لاتا ہے۔
میں نے رعنا لیاقت علی پر اٹھتی انگلیاں نہیں دیکھیں۔ فاطمہ جناح کے نام کی تختی کو ایک جانور کے گلے میں لٹکانے والے سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نسب پر تحقیق کرنے والے علماء سے بھی بات نہیں ہو پائی پر شیر کو گھر کا رستہ دکھانے والی تقریر، بے نظیر کی آنکھوں کو نم کر دینے والا چرکہ، فیروز پور روڈ کے چوک میں لگے مقدس آرٹ کے نمونے سے برآمد ہونے والا سکینڈل، داماد بننے کے قصے، نئی بیویوں کی کہانیاں، سیتا کو لیے پھرنے والا غوری میزائیل، کلبوں کی تصویریں، کیٹ ہاوس میں کھلتی دستار کی کہانیاں البتہ میرے دور کی ہیں۔ اور جب سوچا کہ اس سے بڑھ کر کوئی کیا زہر زبان سے تھوکے گا کہ میاں جاوید لطیف نے خوش فہمی دور کر ڈالی۔
اخلاق کا دامن شاید ہم نے کبھی تھاما ہی نہیں تھا کہ اب اس کے چھوٹ جانے کا نوحہ لکھیں۔ عوام کی بات کیا کریں جب ایوانوں میں بیٹھے وہ جو ان کے اخلاق کی تعمیر کے ذمہ دار ہیں، عمارت کے گرانے کے ٹھیکے لے لیں۔ جن افواہوں کی سان تاریک گلیوں میں کسی جاتی تھی۔ جو کثیفے رات کے بازاروں میں جنم لیتے تھے اور جو بہتان بھاری دروازوں کے پیچھے تراشے جاتے تھے اب انہیں باد سموم کے دوش سفر کر کے اہل سیاست اور اہل سیادت تک نہیں پہنچنا پڑتا کہ یہ سارے کام انہوں نے خود سنبھال لیے ہیں۔
اب بات کچھ چنیدہ پر کیچڑ اچھالنے سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اب اجلے قیمتی لباسوں میں ملبوس انسان نما اوباشوں نے بدرو کے سیاہ پانی سے ہولی کھیلنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ بس یہی ان کی تفریح ہے کہ اس سیاہی کو جتنا پھیلا سکیں، جتنوں کو اس سے زچ کر سکیں، اتنا کر لیں۔ اس میں بھول یہ ہے کہ کپڑے ان کے زیادہ سفید ہیں اور داغ ان پر زیادہ دکھتے ہیں۔ کھیل ختم ہو گا تو تعفن ان کے ہاتھوں سے پھوٹے گا ہی، کوئی نشانے پر آئے یا نہ آئے۔
اگر کسی کا خیال یہ تھا کہ اخلاقی گراوٹ اور پستی اور کیا ہو گی۔ تہذیب کا جنازہ تو اٹھ ہی چکا، اب اس سے آگے کیا رہ گیا۔ بدزبانی کا سیلاب پشتے توڑ ہی چکا ہے اب کہاں جائے گا تو انہیں خبر ہو کہ پستہ قدم اب ایک کھائی کے کنارے جا پہنچے ہیں۔ جنازے کے بعد قبر کھودی جا رہی ہے اور سیلاب گھروں میں آ گیا ہے۔
پہلے ہم بیان نقل کر کے اس پر تنقید کرتے تھے۔ میاں جاوید لطیف کا بیان تو نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ پر کوئی انہیں یہ بتا دے کہ صرف بیٹیاں ہی سانجھی نہیں ہوتیں، عزت، تکریم اور انسانیت کا احساس رکھنے والوں کی بہنیں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔ میاں جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہنوں پر بہتان نہیں باندھا انہوں نے اپنے سر میں خاک ڈالی ہے، اپنی بیہودگی پر مہر ثبت کی ہے اور اپنے مدبرانہ چہرے سے نقاب اتارا ہے ۔ نقاب کے پیچھے ایک راکھشس ہے، ایک آگ اگلتا ناگ ہے، ایک بدترین روح ہے اور اس کا آخری ٹھکانہ پاتال لوک ہے۔ اسفل السافلین ہے اور اس سے پہلے ان کے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ذرا حسن اور حسین نواز سے بات کریں۔ پوچھیں کہ بھائی بی بی مریم کے بارے میں اسمبلی کی زمین پر ایسے یاوہ گو کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے۔ بس ایسا ہی فیصلہ میاں جاوید کے بارے ہونا چاہیے۔ ایوان کے کھونٹے سے ان کی رسی کھول دینی چاہیے تاکہ پاتال لوک تک ان کا سفر کھوٹا نہ ہو۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“