تو اور تیرا خیال ۔۔۔۔۔ ابوالفتح الخزینی
کچھ نادانوں کا خیال ہے کہ پاکستان بیسویں صدی کے نصف میں تخلیق ہوا لیکن تاریخ پر گہری نظر اور مومنانہ فراست رکھنے والے دانشور یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کا وجود اس سے کہیں پرانا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں نوجوان محمد بن قاسم نے جب دیبل کی زمین پر پہلا قدم رکھا تھا تب ہی اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب یہاں ایک نئے وطن کا ظہور ہو گا جس کی سرحد اس کے وطن عراق کے پرے سے لے کر افغانستان اور ہندوستان کے آخری کونے تک ہو گی۔ اس وطن کا نام محمد بن قاسم نے اسی وقت الباکستان سوچ لیا تھا۔ امتداد زمانہ سے "ا " اور "ل " جھڑ گئے اور ب کا پ بن گیا۔ اور یوں یہ غلط العوام پاکستان کہلانے لگا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں البتہ اس نام کو درست کرنے کی مہم شروع کر دی گئی جس میں جزوی کامیابی بھی نصیب ہوئی۔
الباکستان کو محمد بن قاسم کے خواب کی رو سے اسلام کا قلعہ بننا تھا لیکن کچھ اپنوں کی غداری اور کچھ یہود، ہنود، نصرانیوں، سکھوں، آتش پرستوں اور بقیہ مذاہب کے پیروکاروں کی سازشوں کے باعث قلعے کی فصیلیں ایک ایک کر کے گر گئیں۔ الباکستان کے حصے بخرے ہو کر اس میں سے ہندوستان، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں، عراق اور شام وغیرہ الگ ہو گئے اور جو بچا کھچا الباکستان بچا، اس میں بھی قومیت اور لسانیت کا بیج بو کر ہمارے دشمنوں نے بنگلہ دیش بنا دیا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے اس عظیم ورثے سے لاتعلق ہو گئے ہیں جو سراسر ہمارا ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بہت سے قلمی مجاہدین نے اس ضمن میں بے حد کام کیا اور ہمارے نصاب میں تاریخ کے گم شدہ الباکستان کے ہیروز کو ایک ایک کر کے متعارف کرایا۔ بوعلی سینا اور جابر بن حیان سے لے کر ابن الہیثم تک کتنے ہی سائنسدانوں کے کارنامے رٹنے کی وجہ ہماری فکری اور نظریاتی تربیت ہوئی۔ تاریخ پر پڑا وہ پردہ بھی رفتہ رفتہ ہٹا دیا جائے گا جس کی وجہ سے عمر خیام کو نیشا پور، الخوارزمی کو خوارزم اور بنو موسی برادران کو بغداد کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے حالانکہ ان سب کا تعلق ہماری کھوئی ہوئی مملکت الباکستان سے تھا۔
ہمارے ماہرین تعلیم کی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ہماری جڑوں سے پیوست رکھا۔ بہت سے ناعاقبت اندیش یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہمارے مدارس اور جامعات کے بچوں اور نوجوانوں کو سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر عبدالصادق، نرگس ماولوالا، رضی الدین صدیقی، احمد حسن دانی، رفیع چوہدری، فہیم حسین، مرزا عبدالباقی بیگ اور عشرت عثمانی کے بارے میں بتانا چاہیے لیکن یہ انہیں کون بتائے کہ ہمیں اپنی فکری اور نظریاتی جاگیر کو اتنا محدود نہیں کرنا کہ بس ہم اس سات لاکھ مربع کلومیٹر کے محققین اور سائنسدانوں میں پھنسے رہیں۔ شاہیں کا جہاں اور کے مصداق ہمیں اپنی روشن روایت سے رجوع کرنا ہے۔ اپنا افق وسیع کرنا ہے اس لیے ان ناموں سے کہیں زیادہ اہم نام الکندی، ذکریا الرازی، فارابی اور طوسی ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں۔ پھر کچھ اور ہیں۔ پھر کچھ اور ہیں۔ پھر پاکستانی ہیں اور پھر انسان ہیں۔ اگرچہ کچھ کرایے کے لبرل یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہماری کتب میں پڑھائے جانے والے بہت سے نام مسلمان تھے ہی نہیں ۔ کچھ ملحد تھے۔ کچھ بہائی تھے۔ کچھ قرامطہ، کچھ اسماعیلی اور کچھ تو پکے شیعہ تھے پر ان کرایے کے لبرلوں کا اور کام ہی کیا ہے۔ تو یہ بات ذہن میں رہے کہ ابن رشد سے لے کر فارابی تک جتنے نام بھی ہماری درسی کتب میں درج ہیں یہ سب پکے مسلمانوں کے ہیں۔ سب پانچوں نمازیں پڑھتے تھے۔ رمضان کے پورے روزے رکھتے تھے۔ اکثر نے پیدل حج کیا تھا اور اپنی ہر تقریر سے پہلے یہ تلاوت اور نعت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ یوں بھی الباکستان کی مسلم بنیاد اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر شخصیت کو اسلام کی ترازو میں تولا جائے اور پھر اس کے مقام کا فیصلہ کیا جائے۔ اور اسلام کی یہ ترازو وہ ہے جس پر ہماری پارلیمان کی مہر ثبت ہے۔ جس پر حجاج بن یوسف اور ضیاء الحق جیسی نیک روحوں کا سایہ ہے اور جس کے اوزان کی زمہ داری کا بوجھ ابن تیمیہ سے لے کر خادم رضوی تک ایسی عظیم ہستیوں کے ہاتھ ہے جن کا دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔
بہرحال ہم مسلمان اور کچھ اور اور کچھ اور اور پاکستانی ہونے کے علاؤہ کسی حد تک شاید انسان بھی ہیں اس لیے کبھی کبھی غلطی سے ہم چھانتے ہوئے اونٹ ہی نگل جاتے ہیں۔ اور اونٹ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اسے سر گھسانے کو مل جائے تو پھر خیمہ اسی کا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک اونٹ ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی ہے جو نہ خود چین سے کسی کروٹ بیٹھتا ہے نہ ہمیں آرام کرنے دیتا ہے۔ ایک نوبیل انعام کیا جیت لیا، مصیبت ہی ہو گئی۔ گویا دنیا میں اس کے علاؤہ کوئی اور کارنامہ ہے ہی نہیں۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ پگڑی اور کرتے شلوار والا دیسی سائنسدان۔ نہ نام سے پہلے کوئی ابو نہ نام کے ساتھ کوئی ال۔ باقی باتیں چھوڑ بھی دیں تو ایسا روکھا پھیکا نام ہی نہیں جچتا۔ ہم جھنگ کے کنویں میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہمیں تو الباکستان کے سمندر سے مطلب ہے جس میں نیشا پور، بغداد، اصفہان اور خراسان جیسے دمکتے ہوئے جزیرے ہیں۔ دعا دیجیے داماد اول کیپٹن صفدر کو کہ انہوں نے اپنے سسر محترم کی غلطی کی تصحیح کا بیڑا اٹھایا اور ایک کافر پاکستانی سائنسدان عبدالسلام جھنگوی کی جگہ ایک مسلم الباکستانی خراسانی سائنسدان جناب ابو الفتح عبدالرحمان منصور الخزینی کا نام جامعہ قائد اعظم کے شعبہ طبعیات کی پیشانی پر کندہ کرنے کی قرارداد ایوانہائے نمائندگان سے منظور کروا لی۔ سوچیے کہاں ایسا عالی شان نام اور کہاں عبدالسلام۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
کیپٹن صفدر کو یوں بھی داد دینا بنتی ہے کہ وہ ہمیں ہمارے مدفون اور گم شدہ ہیروز سے متعارف کروا رہے ہیں۔ ہم ساری عمر طبعیات سے کسی نہ کسی حوالے سے جڑے رہے پر اتنے کم علم نکلے کہ کبھی اس عالی مقام کا نام بھی نہیں سنا۔ آج جب کپتان صاحب کی عنایت سے جناب الخزینی سے تعارف ہوا تو سوچا کہ کیوں نہ ان کی تصنیفات، ایجادات، مشاہدات اور انکشافات سے بھی متعارف ہوا جائے پر مغرب کے تعصب اور سازشی ذہن نے ان کے تمام عظیم کام دنیا کی نگاہوں سے دور کہیں دفن کر دیے ہیں۔ لیکن انگلی سے یہ سورج چھپایا نہ جائے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر کے ہمیں الخزینی سے وابستہ اپنی کھوئی ہوئی میراث ڈھونڈنی ہے۔
ابھی تو ہمیں صرف یہ پتہ چلا ہے کہ الخزینی بھی ہمارے جلیل القدر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور سلطان بشیر الدین محمود کی طرح ایک سرکاری افسر تھے۔ دن کے وقت سلطان سنجر بن ملک شاہ کی سلجوقی سلطنت کے امور خزانہ دیکھتے تھے اور رات کو چھت پر چڑھ کر تارے گنا کرتے تھے۔ خزانے کی قیمتی دھاتوں کا وزن کرنے کے لیے الخزینی نے بہت سے نئے طریقے ایجاد کیے اور ان کے بارے میں ایک ضخیم کتاب الاوزان بھی لکھ ڈالی۔ الخزینی کے اوزان اور پیمائش کے آلات اصلی اور نقلی دھاتوں میں تمیز کرنے کے لیے بہترین تھے اور اس سے خزانے میں کی جانے والی بدعنوانی سے سلطنت کو چھٹکارا ملا۔ اس کے علاؤہ الخزینی نے برہنہ آنکھ سے ستارے دیکھنے کے لیے بھی کچھ آلات بنائے پر وہ شاید اس کی وفات کے بعد چوری ہو گئے اس لیے ان کا سراغ نہیں ملتا۔ اس کے علاؤہ الخزینی نے اس زمانے کی سب سے بہترین جنتری بھی تحریر کی۔ انٹرنیٹ نہ ایجاد ہوتا تو آج بھی وہ جنتری جہلم کے پل پر رکی ہوئی بسوں میں بیسٹ سیلر ہوتی۔ دیکھا آپ نے۔ اوزان، جنتریاں اور فلک پیمائی ۔ اللہ اللہ ایسا ذہن اور آج تک ہم اس سے بے خبر رہے۔
اس کے مقابلے میں کافر ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس کیا دھرا ہے۔ ایک تو ان کا نام ہی ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے آباء واجداد بھی جھنگ جیسی پسماندہ جگہ کے تھے۔ خراسان، بغداد اور خوارزم سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ پھر کیا بھی تو کیا کیا۔ تیرہ سال کی عمر تک ایک مقالہ نہیں لکھ پائے پھر چودہ سال کی عمر میں جا کر کہیں پہلا مقالہ تحریر کیا۔ کسی طرح کھینچ تان کر کیمرج نامی کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کر لی۔ لے دے کر اٹلی میں ایک مرکز برائے نظری طبعیات بنایا۔ سرکاری ملازمت کی بھی، تو نہ خزانہ کی وزارت میں نہ صنعت میں۔ ایٹمی توانائی کمیشن نامی ایک فضول سے ادارے سے وابستہ رہے۔ پانسو وظائف بھی نوجوان سائنسدانوں پر ضائع کیے جس سے دو تین اچھی بھلی سڑکیں بن سکتی تھیں۔ لاہور میں پی اے ای سی اور وزیراعظم یونیورسٹی میں مرکز برائے نظری طبعیات پر قوم کا خزانہ لٹاتے رہے۔ اپنے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈاکٹر اشفاق احمد، رضی الدین اور عشرت عثمانی جیسے لوگوں کو بھی خراب کیا۔ یہ حضرات ڈاکٹر عبدالسلام کے بہکاوے میں آ کر سرن جیسی جگہوں کو چھوڑ کر واپس آئے اور قومی خزانہ اور وقت ضائع کر کے م ایک جوہری توانائی کمیشن کو رگیدتے رہے، ایک پی اے ای سی کے عمارتیں بڑھاتے رہے اور ملک میں پلوٹونیم اور یورینیم کی کھوج کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیتے رہے۔ ان فضول کاموں پر مغرب نے انہیں بڑھاوا دینے کے لیے بلا وجہ ان کی واہ واہ شروع کر دی۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب درپردہ انہی کے ایجنٹ تھے اس لیے ان کو اہم بنانے کی سازش کے تحت پاک امریکی خلائی تعاون کا معاہدہ بھی ان کے ذریعے ہوا اور 1961 میں ناسا نے بلوچستان میں خلائی تحقیقاتی مرکز بھی قائم کر دیا۔ اب کوئی پوچھے اگر وہ واقعی سنجیدہ ہوتے تو کیا آج 57 سال بعد بھی بلوچستان سے کوئی راکٹ خلا میں کیوں نہیں گیا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو کام نہیں کرنے دیا۔ ناسا بگتی یا مری قبائل کے ساتھ ہی کام کر لیتا۔ نیت صاف ہونی چاہیے۔
1965 میں ڈاکٹر عبدالسلام کی کوششوں سے ہونے والا پاک کینیڈا جوہری توانائی معاہدہ بھی انہی مغربی سازشوں کا تسلسل تھا۔ دنیا کی آنکھوں میں مکمل دھول جھونکنے کی خاطر اسی سال ڈاکٹر عبدالسلام کو بیچ میں رکھ کر امریکہ نے ہمیں ایک ری ایکٹر بھی دے ڈالا اور نیلور کے مقام پر ایڈورڈ سٹون کے ساتھ پاکستان انسٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کا معاہدہ بھی کروا دیا۔ اس کے علاؤہ ڈاکٹر عبدالسلام نے سپارکو نامی ایک سفید ہاتھی بھی قوم پر مسلط کیا جو سیارے چھوڑنے کے علاؤہ کچھ نہیں کرتا۔ کوئی پوچھے پہلے ہی خلا میں اتنے بیکار سیارے گھوم رہے ہیں۔ مزید سیارے چھوڑ کر کیا فایدہ ہو گا۔ یہی پیسہ اگر صحیح طرح صرف ہوتا تو آج ملک میں جامعہ حفصہ اور جامعہ حقانیہ کی کئی شاخیں قائم ہو سکتی تھیں۔ صرف ادارہ ہی نہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے زر مبادلہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ہمارے خلائی سائنسدانوں کی تربیت کا ناسا سے معاہدہ بھی کروا ڈالا۔ تربیت بے شک مفت تھی پر کھانے پینے سفر اور رہائش کے ضمن میں ہمارے خزانے کو بے پناہ نقصان ہوا۔
بھٹو صاحب کے ایٹم بم والے خواب کی باگ ڈور بھی ڈاکٹر عبدالسلام کو سونپی گئی تھی پر بھٹو کو جیسے احمدیوں کے حوالے سے عقل آئی ویسے یہ لگام بھی ایک مومن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو تھما دی گئی۔ کچھ حاسدین کا خیال ہے کہ عبدالقدیر صاحب کو ایٹمی توانائی کا کچھ پتہ نہیں تھا اور پروگرام کی بنیاد ان دستاویزات پر تھی جو ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکہ کے مین ہٹن پروگرام کے حوالے سے مرتب کی تھیں۔ پر حاسدین ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین اس وقت آیا جب ڈاکٹر صاحب نے ببانگ دہل آغا وقار کی پانی والی کار کو سائنسی اعتبار سے درست قرار دیا۔ تندی باد مخالف میں ڈاکٹر عبدالقدیر جیسا شاہین ہی پرواز کر سکتا ہے۔
جہاں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو مغرب نے اپنے بغض میں کبھی کوئی اعزاز نہیں دیا وہیں انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کے تحت عالمی قد کا سائنسدان بنا ڈالا۔ 1950 کا سمتھ پرائز، 1958 کا ایڈم پرائز، 1964 کا ہیو تمغہ، 1968 کا جوہری امن انعام، 1978 کا شاہی تمغہ، 1979 کا نوبیل انعام، 1980 کا جوزف اسٹیفان تمغہ، 1981 کا لومنسوو سونے کا تمغہ اور 1999 کا کوپلے میڈل۔
ٹھیک ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی کم ازکم ایک درجن نظری طبعیات کے مقالے ایسے ہیں جن سے طبعیات کی ایک نئی جہت کا تعین ہوا ۔ گرینڈ یونیفائیڈ تھیوری، الیکٹروویک تھیوری، گولڈسٹون بوسن اور ہگز میکینکس بھی ان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ خدائی ذرہ کہلوانے والا ہگز بوسن بھی ان کی تحقیق کا تسلسل ہے لیکن اس سب سے امت مسلمہ کو بھلا کیا فائدہ پہنچا۔ الباکستان کی نظریاتی اساس کا اس سے کیا لینا دینا۔ الخزینی کے نام کی خوبصورتی کو بھول بھی جائیں تو بھی اس کی وجہ سے کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوئی۔ یورینیم اور پلوٹونیم نہ سہی۔ الخزینی نے ہیرے، زمرد اور یاقوت کے ڈھیر تو لگائے۔ یوں بھی یورینیم کے بدلے ملتا ہی کیا ہے۔ الخزینی عبدالسلام کی طرح کوئی معمولی استاد نہیں تھا ایک اعلی سرکاری افسر تھا وہ بھی وزارت خزانہ کا۔ پھر اس کا نام ابو سے شروع ہوتا ہے اور آخری لاحقہ ال کے ساتھ ہے۔ مملکت الباکستان کی نشاۃ اسی میں ہے کہ اس کے نام پر صرف نظری طبعیات کا مرکز نہیں، پوری جامعہ ہونی چاہیے۔ موازنہ کر لیں۔ قائداعظم یونیورسٹی اچھا نام ہے یا جامعہ ابوالفتح عبدالرحمان منصور الخزینی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ قائد اعظم اسماعیلی بھی تھے اور سرکاری افسر بھی نہیں تھے۔
سوچتے ہوئے شاعری سے محظوظ ہونا چاہیں تو ایک مقبول عام پر ناقابل اشاعت شعر پر یار من محمد حسن معراج کی اس تحریف کا لطف اٹھائیے۔
یہ ملک نظریاتی ہے تیرے خیال میں
تو اور تیرا خیال ۔۔۔۔۔ ابوالفتح الخزینی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“