میرا نبیؐ مجھے واپس کر دو !
میں بچپن میں بھٹو صاحب کا مداح تھا اور ان کی تقریروں کی نقل کرنا میرا دل پسند مشغلہ تھا۔ گھر میں سب بڑے بھٹو کے مخالف سیاسی کیمپ میں تھے پر جب میں بھٹو کے انداز میں نقل کر کے تقریر کرتا تو ہر کوئی حوصلہ افزائی کرتا۔ سیاسی شعور بالکل نہیں تھا لیکن اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے پھر میں نے اور سیاسی رہنماؤں کو بھی سننا شروع کر دیا۔ انہی میں سے ایک شاہ احمد نورانی تھے۔ مجھے شاہ صاحب شروع میں بالکل پسند نہ آئے۔ کہاں بھٹو کی گھن گرج اور کہاں یہ دھیرے سے بہتا ایک سکوں آور چشمہ۔ نورانی صاحب ختم نبوت کے بنیادی علمبرداروں میں سے ایک تھے۔
احمدی جماعت کے شدید ترین مخالف پر بچپن سے لے کر جوانی تک جب بھی انہیں سنا، کبھی ان کے شیریں دہن سے کوئی ایسا لفظ احمدیوں کے بارے بھی سننے کو نہیں ملا جس سے طبعیت پریشان ہوتی۔ ایک دفعہ تقریر کرتے کرتے کہیں رسول اللہ کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے ” لوگ کہتے ہیں کہ نبیؐ ہمارے جیسے تھے۔ معاذ اللہ۔ وہ کہاں۔ ہم کہاں۔ ہماری تو زبان ہی قابو میں نہیں ہوتی۔ کتنی دفعہ غلط لفظ منہ سے نکل جاتے ہیں۔ کتنے ہی گستاخانہ کلمات پھسل جاتے ہیں پھر اسی منہ سے ہم ان کا نام لے لیتے ہیں۔ ارے ہم تو ان کے مرتبے سے واقف ہی نہیں“۔ یہ وہ شخص کہہ رہا تھا جس کے منہ سے کبھی کسی نے سر منبر کوئی بیہودہ لفظ نہیں سنا تھا۔ نورانی صاحب کی فکر سے لاکھ اختلاف کرنے والے بھی ان کی گفتگو کے مداح تھے۔ میں بھٹو کے جادو میں گرفتار رہا پر ساتھ ساتھ نورانی صاحب بھی دھیرے دھیرے دل میں گھر کرتے چلے گئے۔ بریلوی مکتب فکر کی سب سے قدآور نمائندہ آواز تھی ہی اتنی شیریں۔
ہماری مذہبی فکر کی جڑیں اور رشتے دیوبند کے پاکستان میں سب سے مقتدر گھرانے سے جڑی تھیں پر امی اور ابو دونوں نے کبھی میرے پر کترنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ ان کی قدامت پرست طبعیت اور میرا ہلکا پھلکا باغی پن ایک ہی چھت کے نیچے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ مجھے موسیقی سے ایک عجیب سا فطری لگاؤ تھا۔ ہمارے گھر میں موسیقی پر کوئی قدغن تو نہیں تھی پر موسیقی کا کوئی ایسا شوق بھی کسی کو نہیں تھا۔ کیسٹ پلیئر نامی عیاشی بہت بعد میں نصیب ہوئی۔ عام حالات میں بس ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا تھا۔ کبھی کبھی ابو کے ایک دوست ہاشمی صاحب کے جاتے تو عید ہو جاتی کہ ان کے پاس لانگ پلے کا ایک خزانہ تھا جسے وہ اپنے گراموفون پر ہمہ وقت سنتے۔ ہم پہنچتے تو وہ کچھ دیر ابو سے گپ لگانے کے بعد میری خصوصی دلجوئی کے واسطے کوئی نہ کوئی گیت لگاتے اور پھر اس کے بارے میں آسان زبان میں ایک لیکچر دیتے جسے میں انتہائی انہماک سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا۔
بہت سے گلوکاروں اور موسیقاروں سے تعارف انہی کے سبب ہوا۔ ایک دن کہنے لگے ” نعت سنو گے“ اب سچ تو یہ ہے کہ نعت سے ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ایک تو اس میں ساز نہیں ہوتے تھے دوسرے ہم نعت خوانوں کو گلوکاروں سے الگ کوئی مخلوق سمجھا کرتے۔ پر انہیں سیدھا منع کرنا مشکل تھا اس لیے سر اوپر سے نیچے ہلا دیا۔ انہوں نے ہمارے چہرے پر لکھی مایوسی سے صرف نظر کرتے ہوئے پہلے سے نکالا ہوا ایک ایل پی لگا دیا۔ ساز سنائی دیے تو تھوڑی حیرانی ہوئی پر چپ رہے اور پھر لتا کی آواز کمرے میں بھر گئی
”اے میرے مشکل کشا، فریاد ہے، فریاد ہے
آپ کے ہوتے ہوئے دنیا میری برباد ہے
بیکس پہ کرم کیجیے سرکار مدینہ
گردش میں ہے تقدیر، بھنور میں ہے سفینہ
بیکس پہ کرم کیجیے سرکار مدینہ“
نعت ختم ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ ہاشمی صاحب کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر سوچتے رہے کہ جو پوچھنا ہے وہ پوچھیں یا نہ پوچھیں پر مشکل آسان یوں ہوئی کہ انہوں نے خود ہی پوچھ لیا
” ہاں بھئی۔ کیسی لگی“
”بہت خوبصورت“ ہم نے دل سے کہا۔ ” پر یہ لتا نے گائی ہے نا؟
” ہاں، کیوں؟ “
”لیکن لتا تو ہندو ہے نا۔ ایک ہندو نعت کیسے گا سکتا ہے؟ “
انکل جواب دینے کے بجائے کچھ دیر چوتھی یا پانچویں جماعت کے مطالعہ پاکستان کے ایک مقلد کو دیکھتے رہے۔ پھر کوئی جواب دیے بغیر اٹھے اور اپنی ایل پی کی الماری سے ڈھونڈ کر ایک اور ایل پی نکالا
” بھجن سمجھتے ہو؟ “ ایل پی پر سوئی رکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا
”نہیں“ ہم نے سچ بول دیا
” اچھا۔ میں سمجھاتا ہوں۔ جیسے ہم مسلمان اللہ کے لیے حمد اور نبیؐ پاکؐ کے لیے نعت پڑھتے ہیں ایسے ہی ہندو اپنے بھگوان اور اپنے نبیؐوں کے لیے بھجن پڑھتے ہیں۔ سمجھ آئی“
بات آسان تھی اس لیے ہم نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا
” تو تمہیں بھجن سناتے ہیں“
اس سے پہلے کہ ہم اپنی اسلامیات کی کتاب کا کشتہ بن کر اعتراض اٹھاتے، ایل پی چل پڑا۔
”سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں نہ کوئی
میرے رام، میرے رام
تیرا نام ایک ساچا، دوجا نہ کوئی
جیون آنی جانی چھایا
جھوٹی مایا، جھوٹی کایا
پھر کاہے کو ساری عمریا
پاپ کی گٹھڑی ڈھوئی۔
سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں نہ کوئی“
بھجن ختم ہو گیا۔ کچھ سمجھ آیا، کچھ نہیں پر دل نرم سا پڑ گیا تھا۔ ابو ہندی اور سنسکرت جانتے تھے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر بولتے وقت بہت سے نامانوس لفظ ان کی گفتگو میں در آتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ لفظ ہمیں بھی سمجھ آنے لگے تھے۔ اس لیے اس وقت بھی بھجن کا کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جو بالکل اجنبیؐ لگے، مفہوم میں شاید کسر تھی پر پھر بھی سب دل میں ضرور اترا۔
” آواز تو پہچانتے ہو“ ہاشمی صاحب نے پوچھا
”جی۔ رفیع صاحب“ اب رفیع کی آواز کوئی کیسے نہ پہچانے
” تو میرے بچے، اگر رفیع ایک مسلمان ہو کر بھجن گا سکتا ہے تو لتا ہندو کر نعت گا سکتی ہے۔ اس میں پریشانی کیا ہے“
ہمیں بالکل سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دیں۔ ہماری خاموشی دیکھ ہاشمی صاحب نے بات جاری رکھی
” دیکھو نہ کسی نے خدا کو دیکھا ہے نہ کسی نے بھگوان کو۔ بس سنا ہے ان کے بارے میں یا پڑھا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ اپنے شکوے خدا سے کرنے ہیں۔ جو بھگوان کو مانتا ہے وہ اس سے لڑ لیتا ہے۔ ہمیں کچھ مانگنا ہوتا ہے جو اور کہیں سے نہیں ملتا تو اپنے اپنے خدا اور بھگوان سے مانگ لیتے ہیں۔ تم اسے شاید غرض کا رشتہ سمجھو۔ یہ ایسا ہی ہے۔ پر ایسا ہی ایک رشتہ اور ہے جس میں کوئی غرض نہیں ہے اور وہ ہے اس انسان سے محبت جو ہمارے لیے خدا کا پیغام لاتا ہے۔ اس رشتے میں بس محبت ہے۔ ہندو رام سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے نبیؐ سے پیار کرتے ہیں۔ دیکھا ہم نے انہیں بھی نہیں ہے۔ بس سنا ہے یا پڑھا ہے اور جو سنا پڑھا ہے اس سے یہی جانا ہے کہ وہ شفیق لوگ تھے۔ محبت کرنے والے۔ دوسروں کے دکھ میں تڑپنے والے، اوروں کے لیے اپنی زندگی تج دینے والے تو بس ہم ان کی محبت تھوڑی تھوڑی کر کے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نعت، یہ بھجن بس ہمارے اظہار کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اور جو اتنے پیارے لوگ ہوتے ہیں ان سے بات کرنے کے لیے، ان سے پیار کرنے کے لیے کوئی شرط تھوڑی ہوتی ہے۔ یہ محبت اتنی وشال ہے کہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی سب اس میں سما جاتے ہیں“
ہم چپ بیٹھے سنتے رہے۔ باتیں اچھی لگیں۔ پوری طرح سمجھنے میں شاید ابھی بہت برس لگنے تھے پر جو احساس جاگ رہا تھا اسے دل میں سینچ کر رکھنا بڑا آسان لگا۔
اس دن کے بعد موسیقی کے معنی اور وسیع ہو گئے۔ نعت بھی اچھی لگنے لگی اور قوالی بھی بھانے لگی۔ لفظ کانوں سے آگے کا سفر کر کے دل میں اترتے تھے۔ اس دور میں کیا کچھ نہیں سنا۔ قاری خوشی محمد پی ٹی وی پر بچوں کی سنگت میں قصیدہ بردہ شریف پڑھتے تو ہم بھی ان کے ساتھ لفظ دہراتے۔ امی ریڈیو پر حبیب ولی محمد کو ” ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں“ گاتے سنتیں تو ہم بھی مصطفوی مصطفوی کی گردان کرتے۔ صابری برادران کی قوالیاں سب یاد ہو گئیں اور قاری وحید ظفر قاسمی کی سب نعتیں بھی۔ ساتھ ساتھ ”من تڑپت ہے ہری درشن کو آج“ میں رفیع صاحب کے سروں پر کتنی دیر سر بھی دھنتے پر اس سب میں ابھی کہیں کچھ کمی تھی۔ کہیں کچھ ادھورے پن کا احساس، یوں جیسے بات سنی تو ہو پر کچھ لفظ گم گئےہوں۔ تفہیم ہوتی نہیں تھی اور کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کھویا ہوا سرا کہاں سے ملے گا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک قیامت سال میں امی اور ابو دونوں ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ پتھر کی ڈلی سا دل موم کا ٹکڑا بن گیا۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے کبھی حلق میں ایک گولہ سا پھنس جاتا، کبھی آنکھوں کے کنارے نم ہو جاتے اور کبھی پتہ بھی نہ لگتا اور تمام چہرہ بھیگ جاتا۔ غم نے دل کی ساری دیواروں میں در بنا ڈالے۔ پہلی بار سمجھ آیا کہ دکھ کے بادل سے محبت کی بارش کا کیا رشتہ ہے۔ اب دل ہر ذکر پر گداز ہوتا تھا۔ قاری وحید ظفر قاسمی جب پڑھتے
” زہے مقدر، حضور حق سے سلام آیا، پیام آیا
جھکاؤ نظریں، بچھاؤ پلکیں، ادب کا اعلی مقام آیا“
تو آنکھیں خود بخود جھک جاتیں۔ یوں لگتا کہ گبند خضری کہیں آس پاس ہی ہے۔ دل کو کوئی مٹھیوں میں جکڑ لیتا، زبان ٹھٹھر سی جاتی، آنسو کہیں دور اندر سے چشمے کی طرح پھوٹتے اور آبشار کی طرح رواں ہو جاتے۔ نعت ختم ہو جاتی پر سحر ختم ہونے کا نام نہ لیتا۔
میں اکثر سوچتا کہ کبھی مدینے گیا تو اپنا واک مین اور ہیڈ فون ساتھ لے کر جاوں گا۔ مجھے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا کبھی خیال نہ آیا پر یہ بارہا سوچا کہ میں روضہ رسول کے سامنے ایک کونے میں کسی ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاوں۔ کانوں میں ہیڈ فون لگا لوں۔ روضے کو دیکھتا رہوں اور کانوں میں غلام فرید صابری اور مقبول صابری کہہ رہے ہوں
” تاجدار حرم۔ ہو نگاہ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
حامی بے کساں، کیا کہے گا جہاں
آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے
کوئی اپنا نہیں، غم کے مارے ہیں ہم
آپ کے در پہ فریاد لائے ہیں ہم
ہو نگاہ کرم ورنہ چوکھٹ پہ ہم
آپ کا نام لے لے کے مر جائیں گے“
یہ تخیل اتنا پر اثر تھا کہ میں زمان ومکان سے ماورا ہو کر اپنے آپ کو اس دربار میں فریاد کناں پاتا تھا۔ پھر کہیں سے باپ کے بازو کندھے کے گرد لپٹ جاتے۔ سر خود بخود ماں کی گود میں گر جاتا اور میں اس وقت تک روتا رہتا جب تک جسم ایک روئی کے گالے کی طرح ہلکا نہ ہو جاتا۔ ایک ہی در سے ساری کھوئی محبتیں ملتی تھیں اور بار بار ملتی تھیں۔
میرے پاس ہر مسئلے کا حل میرا نبیؐ بن گیا تھا۔ میرا نبیؐ اپنے پہ کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کرتا تھا۔ میرا نبیؐ اپنے لہو ہوئے پیر دیکھتا تھا اور طائف کی سلامتی کی دعا کرتا تھا۔ میرا نبیؐ حاتم طائی کی بیٹی کے ننگے سر پر ردا دھرتا تھا۔ میرا نبیؐ اپنے چچا کے قاتلوں کو ایک توقف کیے بغیر معاف کرتا تھا۔ میرا نبیؐ سجدے سے سر نہیں اٹھاتا تھا جب تک حسن اور حسین شانوں سے اتر نہیں جاتے تھے۔ میرا نبیؐ مشرکین کے بچوں کو اپنے رفقاء سے افضل ٹھہراتا تھا اور ان کے ناحق خون پر روتا تھا۔ میرا نبیؐ دف بجانے والی بچیوں کی خوشی میں خوش ہوتا تھا۔ میں اسی نبیؐ کے دربار میں اپنی ہر عرضی ڈال دیا کرتا تھا کہ اس کی شفقت، اس کی رحمت اور اس کی محبت کے سوا اور کوئی امید رکھنے کی کبھی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
پھر وقت بدلا۔ ایک ہوا ایسی چلی کہ امید کے شجر کے سب برگ و بار جھڑنے لگ گئے۔ کچھ چہرے کہیں سے ظہور ہوئے جن کے لیے عبداللہ بن خطل کا ذکر زیادہ ضروری تھا۔ جن کے پاس کعب بن اشرف کے قتل کے تذکرے ایک خاص پیرائے میں ضروری تھے۔ جن کی روایتوں میں قتل ناحق مباح تھا۔ جن کے نزدیک محبت کا راستہ خون کے دریا سے گزرتا تھا۔ جن کے نزدیک درگزر، معافی، چشم پوشی بے معنی لفظ تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواروں تھیں۔ سروں پر دستاریں تھیں۔ جسم پر جبے لہراتے تھے اور منہ سے صرف آگ نکلتی تھی۔ یہ ہمیں بتانے لگے کہ مذہب امن کا نہیں قتال کا درس دیتا ہے۔ دعوت کردار سے نہیں، شمشیر کی دھار سے ممکن ہے۔ آوازوں سے مکالمہ نہیں کیا جاتا، انہیں گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اختلاف میں حسن نہیں ہے، فساد ہے۔ ایک نئی تصویر بنتی چلی گئی۔ رمشا، آسیہ، جنید، راشد، شہزاد اورشمع کی امیدوں، آرزووں اور امنگوں کے لہو سے اس تصویر میں رنگ بھرے گئے۔ شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کی خاک سے تصویر کی آوٹ لائن اجاگر ہوتی چلی گئی۔ اے پی ایس کے بچوں کی لاشوں کی اوٹ سے بنو قریظہ کے عذر کی روشنی ڈال کر تصویر کو اور واضح کر دیا گیا۔ پھر تصویر چوک میں سجا دی گئی اور اب اس کے گرد تماشا لگا ہے۔
اس تماشے میں کوئی فریاد کناں نہیں ہے۔ کسی کی آنکھیں گریے سے بوجھل نہیں ہیں۔ کسی کی پلکیں ادب سے بچھی نہیں ہوئیں۔ اس ہجوم کے مصطفوی صرف تخریب کے ولی ہیں۔ شاہ احمد نورانی کی جگہ ان لوگوں نے لے لی ہے جن کا کوئی جملہ گالی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور دشنام اور مغلظات کی ہر گردان کے بعد وہ اسی ہستی کا نام لیتے ہیں جس کا نام لینے سے پہلے ان کے اجداد وضو کر لیتے تھے۔ مجھے جب کوئی یہ بتاتا ہے کہ نبیؐ سے محبت کا نام پر گردن اتارنا جائز ہے تو میری لغت میں محبت کے لفظ کے آگے سے معنی غائب ہو جاتے ہیں اور صرف سوالیہ نشان رہ جاتے ہیں۔ مجھے جب یہ درس دیا جاتا ہے کہ عشق رسول میں دوسروں کے سر مانگنا تقاضہ عشق ہے مجھے اپنے برسوں کے عشق پر شک ہونے لگتا ہے۔ جب مجھے یہ پاٹھ پڑھایا جاتا ہے کہ گالیاں دینا رسول کی پیروی کی نشانی ہے، قرآن کا اسلوب ہے تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ مجھے ملے تہذیب کے کیا سب درس قرآن اور سنت کے برعکس تھے۔ اس کشمکش میں اوروں کا پتہ نہیں پر میری سب سے عزیز متاع کھو گئی ہے۔
میں نہیں پوچھتا کہ سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے۔ کون سی روایت قوی ہے کون سی ضعیف ہے، کس کی تاریخ درست ہے، کس کی غلط ہے، کس کی تفہیم ارفع ہے اور کس کی تشریح ناقص ہے۔ میرا مسئلہ تو کچھ اور ہے۔ بہت برسوں میں جو دل موم ہوا تھا وہ پھر پتھر کی ڈلی بنتا جا رہا ہے۔ میری آنکھوں میں اتنی وحشت بھر گئی ہے کہ آنسوؤں کی جگہ نہیں بچی۔ دل کے وہ سب دروازے جو محبت نے کھولے تھے ان پر نفرت اب قفل ڈالتی چلی جا رہی ہے۔ میں تاجدار حرم سننے کی کوشش کرتا ہوں تو امجد صابری کا لاشہ اتنے زور سے چیختا ہے کہ ایک لفظ سمجھ نہیں آتا۔ لتا کی مدھر آواز گالیوں کے بوجھ تلے الگ پڑی سسک رہی ہے۔ قصیدہ بردہ شریف گاتے ہوئے سبز پوش بچے اب گنگ کھڑے ہیں۔ محبت کے راگ اب حرام ٹھہرے ہیں اور نفرت کا نقارہ زور سے بج رہا ہے۔ مجھے بس یہی شکوہ ہے، میرے پاس ایک نبیؐ تھا جو سر سے پیر تک محبت تھا اور مجھے صرف اس کی محبت سے واسطہ تھا۔ اس کی محبت سے امید تھی۔ ظالمو، تم نے وہ چھین لیا ہے۔ بس میرا وہ نبیؐ مجھے واپس کر دو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“