قربانی کے طول طویل فلسفے اور شیخ صاحب کی ناراضی
عقیدہ دلیل سے آزاد بھی ہے اور ماورا بھی۔ یہی احوال ایمانیات اور ایمانیات سے جڑے رسوم و رواج کا ہے۔ دنیا میں ارب ہا ارب لوگ مختلف عقائد کے اسیر ہیں اور ان کے عقائد کا احترام واجب ہے تاوقتیکہ وہ ان کی ذاتی زندگی تک محدود رہیں، قانون کا حصہ نہ بن جائیں اور دوسروں کی آزادی میں دخیل نہ ہوں۔ ایک صورت وہ ہے جب عقیدے کی تاویل رکھی جائے اور اس پر اصرار کیا جائے۔ ایسی صورت میں بحث بھی چھڑے گی اور ہر دو سمت سے دلائل بھی لائے جائیں گے۔ اگر تو دلیل کا دروازہ اہل ایمان نے خود کھولا ہے تو پھر ان دلائل پر تنقید بھی خوش دلی سے برداشت کرنا ہو گی اور یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ دلیل کا وزن خود فیصل ہے۔ ہمارے یہاں یہ چلن نہیں ہے۔ متقی حضرات ریت میں لکیر کھینچتے ہیں اور لہروں کے لوٹ جانے پر بھی بضد رہتے ہیں کہ لکیر وہیں ہے۔ نقطہ نظر اس لیے پیش کرنے کی روایت نہیں ہے کہ اس پر مکالمے کا دفتر کھلے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اسے اجتماعی دانش کا حتمی پیمانہ تسلیم کر لیا جائے۔
عید قربان کا غلغلہ ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں کو اس وقت سوجھی کہ اس عید کے روحانی فضائل تو فہم انسانی میں راسخ ہیں ہی، پر ایک جدید ذہن کے لیے اس کی قبولیت تب ہی ممکن ہو گی جب اس کے معاشی، معاشرتی، مالیاتی اور عمرانی ثمرات کو بھی قوم کے سامنے رکھا جائے۔ ایسی صورت میں یہ بات مروجہ ایمانیات سے آگے بڑھ کر اس دائرہ کار میں داخل ہو گئی جہاں تجزیہ بھی ہو سکتا ہے، توصیف بھی ممکن ہے اور تنقید بھی جائز ہے۔ گرچہ اس پر کچھ ناراض ٹھہریں گے کہ خوش دلی مبلغین اور مصلحین کو راس آتے ہم نے کم دیکھا ہے۔
قربانی کا تصور اسلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہزاروں برس سے ہر چھوٹے بڑے مذہب میں یہ تصور موجود رہا ہے اور اس کی تاریخ بزات خود انتہائی دلچسپ ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں انسانی شعور مستحکم ہوا، قربانی کی روایت کمزور پڑتی چلی گئی۔ اسلامی معاشروں میں بہرحال یہ روایت آج بھی پائیدار ہے اور عید قربان کے علاوہ بھی صدقات اور شکرانے یا کفارے کی نیت سے قربانی کا چلن عام ہے۔
قربانی کے حوالے سے اگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ جس مالک کائنات پر آپ کا غیر متزلزل ایمان ہے اسے راضی کرنے یا خوش کرنے یا محض اس کی شکر گزاری کے اظہار کی غرض سے قربانی ایک مذہبی روایت کے تسلسل کے طور پر آپ پر واجب ہے اور آپ اس کی استطاعت رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ اچھا، مہنگا یا خوبصورت جانور قربان کرنا محض اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر ہے تو پھر نہ اس عقیدے پر کوئی سوال بنتا ہے نہ اس پر بحث ممکن ہے نہ اس پر تنقید کا کوئی محل ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے دائرے میں اپنے ذاتی مذہبی افعال کے لیے کسی کو جواب دہ نہیں۔ پر ہمارے بزرجمہر اس پر بس نہیں کرتے۔ نہ جانے کیوں یہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر اس شخص کو جو اس تشریح سے متاثر نہیں ہے، کسی بھی طرح راضی کر لیں۔ چونکہ یہ دلائل اب بہت کثرت سے سننے کو ملتے ہیں اس لیے کیوں نہ ان کا مخالف نقطہ نظر بھی سن لیا جائے۔
عید قربان کے حوالے سے جو دلیل سب سے زیادہ سننے کو ملتی ہے وہ معاشی سرگرمی کے حوالے سے ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ عید قربان کے حوالے سے ہونے والا کاروبار معاشی استحکام کا سبب بنتا ہے۔ اربوں روپے گردش میں آتے ہیں۔ روزگار کے نئے مواقع کھلتے ہیں۔ معاشی خوشحالی کے نئے در وا ہوتے ہیں اور مویشیوں کی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔ آئیے ان تمام دعووں کا ذرا معیشت کے اصولوں اور حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ منڈیوں کی تیزی یا ان کا مندی براہ راست معاشی اشاریوں پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن یہ صرف عید قربان سے خاص نہیں ہے۔ آپ پاکستان میں سکھوں کے مذہبی تہواروں کا ڈول ڈالیں، لاہور میں بسنت منائیں، ہندووں کے مقدس مقامات کی مارکیٹنگ کریں، سوات میں سیروتفریح کے ذرائع کو محفوظ بنا دیں، ملک گیر شاپنگ فیسٹیول کا اجرا کریں۔ ان میں سے ہر ایک معاشی سرگرمی ہے۔ ہر ایک سے معیشت پر اثرات مرتب ہوں گے پر کیا قربانی کی غرض معاشی سرگرمی ہے؟ اس طرح تو حج بھی ایک بڑا معاشی اجتماع ہے پر اس کا معاشی فائدہ ایک ملک کو ہوتا ہے اور چھپن باقی ممالک کو نقصان کہ ان کا سرمایہ باہر منتقل ہوتا ہے۔
عید قربان کے بعد نہ زر مبادلہ کی شرح بہتر ہوتی ہے نہ تجارتی خسارے میں کمی آتی ہے نہ ملکی میزانیے کا توازن بدلتا ہے نہ سالانہ فی کس آمدن بہتر ہوتی ہے اور تو اور شرح روزگار کے اشاریوں میں بھی کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں آتی۔ مویشی بانی کی صنعت سے جڑے ممالک میں ہمارا نمبر کہیں دور دور تک نہیں ہے۔ ہالینڈ، آسٹریلیا، امریکا اور نیوزی لینڈ جیسے کافر ممالک سائنسی بنیادوں پر دودھ اور گوشت کے کاروبار اپنی قومی ترقی پیداوار کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں تو value addition کا تصور ہی کسی کو سمجھ نہیں آتا۔ رسد اور طلب میں عید کے دنوں میں ایک وقتی لیکن انتہائی اثر کن عدم توازن جنم لیتا ہے اور مصنوعی طلب کے آسمان پر پہنچنے کی وجہ سے قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ ہو جاتا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں کا مطالعہ آپ کو یہ بتا دے گا کہ سرخ گوشت کی قیمتیں کیونکر عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی چلی گئی ہیں۔
قومی پیداوار میں نمو اس وقت ممکن ہے جب معاشی سرگرمی کے نتیجے میں ہونے والا ہر تبادلہ آخرکار دولت کا ارتکاز ایسی جگہ ممکن بنا سکے جہاں پیداوار کے نئے ذرائع تشکیل پائیں۔ عید قربان کا اس حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں ہے چنانچہ یہ سمجھنا کہ اس عید پر ہونے والی خریدوفروخت معاشی صورت حال پر حیرت انگیز مثبت اثرات کی حامل ہے، محض ایک خام خیالی ہے۔ ہم ایک بند معاشی نظام کے اندر مصنوعی اور غیر پیداواری طلب کو فروغ دے کر کون سا معاشی مقصد حاصل کرتے ہیں، یہ میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ ہاں اگر ہم بڑی تعداد میں باقی اسلامی دنیا کو جانور برآمد کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر بات اور ہے۔
عید کا ایک مقصد اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے غریب کو کھانے کا گوشت مل جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قربانی کے جو احکام قرآن مجید میں ہیں اس میں کہیں یہ تین اور سات حصوں اور ان کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ قربانی کے مستند اصولوں میں سے ہے کہ قربانی کا گوشت غرباء میں تقسیم ہونا ہے۔ ایک رسم کے طور پر یہ ایک عمدہ اور بہتر طرز عمل ہے کہ یہ گوشت زیادہ سے زیادہ تقسیم کر دیا جائے پر یہ انفرادی انتخاب کا معاملہ ہے، قربانی کے اسلوب کا حصہ نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو سارا گوشت خود رکھ لیں، اس سے قربانی کی قبولیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس تناظر میں یہ دلیل بہت کمزور پڑ جاتی ہے۔
اب اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ دلیل دینے والوں نے یا تو غریب نہیں دیکھے یا غربت نہیں دیکھی۔ ایک غریب کے لیے یہ ایک مذاق ہے کہ سال میں ایک دن آپ اسے گوشت کی چند بوٹیوں کے عوض اخوت اور غریب پروری کا درس دیں۔ غریب کا مسئلہ ایک دن گوشت پکانا نہیں، سال بھر پیٹ میں دہکنے والی بھوک کا علاج کرنا ہے۔ اس کا مسئلہ گیسٹرو سے مرتے اس کے بچے ہیں۔ اس کا مسئلہ دن بھر کی اس دیہاڑ کے لیے مارا مارا پھرتا ہے جس کے بعد ملنے والے روپے قانونی طور پر مقرر کم ترین تنخواہ کا نصف بھی نہیں بن پاتے۔ اس کا مسئلہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں اوزاروں یا کشکول کی جگہ کتابیں تھمانا ہے۔ اس کا مسئلہ کھلے آسمان نیچے ایک مٹی کی، گھاس کی یا ٹین کی چھت ڈھونڈنا ہے جہاں وہ کچھ دیر کو سو سکے۔ اس کا مسئلہ بیس بیس کلومیٹر سے پانی ڈھونا ہے۔ اس کا مسئلہ نئے کپڑے نہیں، پرانے کپڑوں کے لیے پیوند ڈھونڈنا ہے۔ اس کا مسئلہ اپنے بچوں کی آنکھوں کی حسرتوں سے نظر چرانا ہے۔ اس کا مسئلہ دوا کی گولیوں کا ایک پتہ ہے۔ اس کا مسئلہ سب کچھ ہے، گوشت کی چار خیراتی بوٹیاں نہیں ہیں۔ تو جب آپ اپنے پانچ لاکھ کے بیل یا ایک لاکھ کے بکرے کے حصے بخرے کر کے اس میں سے چند چھیچڑا نما گوشت کے ٹکڑے غریب کی تھیلی میں ڈال رہے ہوں تو یقین رکھیے آپ نے کوئی کارنامہ نہیں کیا۔ آپ نے کوئی کارنامہ اس وقت بھی نہیں کیا تھا جب آپ کے بچے اپنے بکرے کی نمائش گلی میں کرتے پھر رہے تھے اور آپ کے ڈرائیور کا بچہ باپ سے پوچھ رہا تھا “ابا، ہم اس سال بھی قربانی نہیں کریں گے”۔ معاشرتی تفاوت کو جنم دیتی ہے ہر وہ رسم جس کا تعلق آپ کی “استطاعت” سے ہے۔ چھوڑیے حضور کوئی اور بات کرتے ہیں۔
ہم نے پہلے کہا کہ آپ کا یہ عقیدہ کہ اچھا اور مہنگا جانور راہ خدا میں قربان کرنا آپ کا ذاتی مسئلہ ہے اور اس میں کسی کو دخل انداز ہونے کا کوئی حق نہیں ہے پر اگر کوئی بھولا بھٹکا دولت کے تماشے پر ایک آدھی جلی کٹی سنا دے تو واپسی کے طعنے اس وقت دیجیے جب ان میں دم ہو۔ ہمارے ایک دوست ایسے موقعے پر بالکل آتش زیر پا کی عملی مثال بن جاتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے جب ان کے ڈیڑھ لاکھ کے بکرے پر کسی نے پھبتی کسی تو کہنے لگے کہ تمہیں غریبوں کا اتنا درد ہے تو آئی فون کی جگہ کیو موبائل رکھو، بی ایم ڈبلیو کی جگہ مہران پر پھرو، ثنا سفیناز کی لان کے بجائے اچھرہ بازار سے بیوی کو کپڑے لے کر دو، پیروں میں گوچی کے بجائے گلی کے موچی کے بنائے جوتے پہنو پھر بات کرنا۔ اگلا ان سے بھی زیادہ ستم ظریف تھا۔ کہنے لگا، یا شیخ، یہ سارے کام میں تو دکھاوے کے لیے، اسٹیٹس کے لیے، نمائش کے لیے یا صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اس سے میری زندگی زیادہ سہل محسوس ہوتی ہے۔ اور تو اور کبھی بہت دل گرفتہ ہو کر رونے کو دل کرے تو بی ایم ڈبلیو کے اسٹئیرنگ پر سر رکھ کر رونے کا لطف آ جاتا ہے۔ مہران میں تو آدمی سارا دن ہی دل سوختہ رہتا ہے۔ پر آپ تو ارشاد ربانی کی تکمیل کے لیے ایک فرض ادا کر رہے ہیں۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ مالک کائنات کو بھی اسٹیٹس سمبلزم سے ہی غرض ہے۔ ایسا ہے تو پھر آپ سے زاہد اور ہم سے گنہگاروں میں فرق ہی کیا رہا۔ اور رہے ہمارے وہ مشورے جن میں ہم آپ کو کہتے ہیں کہ قربانی کے بجائے کسی غریب کی بیٹی کا جہیز بنا دیں تو وہ اس لیے کہ آپ قربانی کو غریب کی مدد کا استعارہ ٹھہراتے ہیں۔ آپ کہیے کہ قربانی بس اللہ کے لیے ہے، غریب کو مساوات میں سے نکال دیں تو ہم کون ہوتے ہیں مداخلت کرنے والے۔ نجانے کیوں اس دن سے شیخ صاحب نے پھر اس دوست سے کلام نہیں کیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“