پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں علما و مشائخ کی مخصوص نشست پر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے محمد مظہر سعید عرف عبداللہ شاہ مظہر کو مشرف حملہ کیس میں خفیہ اداروں نے 6 ماہ تک حراست میں رکھا اور مبینہ طور پرشدید تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور تفصیلی تفتیش کے بعد انہیں رہائی ملی۔
تقریباً دس سال پہلے قتل ہو جانے والے پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی سید سلیم شہزاد کی تصنیف ”ان سائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان“ میں مظہر سعید شاہ عرف عبداللہ شاہ مظہر کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔
تصنیف میں لکھا ہے کہ 2003ء کے اواخر میں جنرل پرویز مشرف پر حملے کے بعد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کے ’جہادی سرکل‘ کے ساتھ تعلق کا معمولی شبہ بھی اسکی گرفتار ی کیلئے کافی تھا۔ یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ اس کے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کتنے اچھے تعلقات ہیں۔
جیش محمد کے سپریم کمانڈر عبداللہ شاہ مظہر کو بھی’آئی ایس آئی‘نے اس وقت اٹھا لیا جب آصف چھوٹو نامی شخص کو مشرف حملے کیلئے مالی مدد فراہم کرنے کے شواہد ملے۔ آصف چھوٹو نے بعد ازاں القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ عبداللہ شاہ مظہر نے اپنی گرفتاری کے ایام کی معلومات کچھ اسطرح فراہم کی ہیں:
”مجھے کراچی سے اٹھا کر ایک گاڑی میں ڈالا گیا۔ آخری عمارت جو میں نے دیکھی وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی سلطان مسجد تھی۔ اس کے بعد میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور مجھے ایک بنگلے میں لے جایا گیا۔ مجھے اچھی خوراک دی گئی اور اچھا برتاؤ کیا گیا۔ مجھے سے آصف چھوٹو سے متعلق کچھ سوالات کئے گئے اور یہ پوچھا گیا کہ میں اسے کتنا جانتا ہوں اور جنرل مشرف پر حملے میں میرے ملوث ہونے سے متعلق پوچھا گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اور آصف چھوٹو ایک مدرسہ میں اکٹھے زیر تعلیم رہے لیکن میں اسکی سرگرمیوں سے متعلق کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی میں جنرل مشرف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی میں شامل رہا ہوں۔ ملٹری افسر نے مجھے بتایا کہ میرے پاس سوچنے کیلئے تین دن ہیں، اس کے بعد وہ مجھے ایسے لوگوں کے حوالے کر دے گا جو میرے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرینگے۔ میرا جواب وہی رہا کہ مجھے کوئی پتہ نہیں آصف چھوٹو کیا کچھ کرتا رہا ہے۔“
سلیم شہزاد لکھتے ہیں کہ عبداللہ شاہ مظہر نے کہا کہ تین روز بعد انہیں ایک نئی جگہ منتقل کر دیا گیا جو ملٹری بیرکس تھیں۔
”کوئی بھی مجھے دیکھنے نہیں آیا سوائے اس کے جو مجھے کھانا اور پانی فراہم کرتا تھا۔ پھر ایک روز مجھے ایئر پورٹ لے جایا گیا، جہاں سے ایک دوسرے شہر لے جایا گیا، شاید وہ لاہور تھا۔ مجھ سے ایک سوال بھی نہیں کیا گیااور انہوں نے مجھے چھت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا جیسے قصائی چکن کو ذبح کرنے کیلئے لٹکاتا ہے۔ میرے ہاتھ اور ٹانگیں اکٹھی ایک رسی سے باندھ دی گئیں اور میں چھت کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ میرے جسم کے پٹھے اور ہڈیاں تک درد سے چیخ رہی تھیں۔ ایک گھنٹے بعد انہوں نے مجھے نیچے اتارا اور میری شلوار نیچے کر کے ایک موٹے ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیا۔ اس سارے عرصہ میں کسی نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ جب میں بے ہوش ہو گیا تو مجھے ایک چھوٹی سیل میں منتقل کر دیا گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک آدمی آیا، دروازے کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھول کر مجھے سے ہاتھ آگے بڑھانے کو کہا۔ جب میں نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے کچھ مرہم میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا کہ یہ مرہم زخموں پر لگا دوں۔“
عبداللہ شاہ مظہر نے کہا کہ اس کے بعد ایک تفصیلی تفتیشی سیشن ہوا، جس کے بعد انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ 6 ماہ بعد انہیں بے گناہ قرار دیا گیا۔ ایک بریگیڈیئر ان کے پاس آیا اور اس نے سخت سلوک پر معافی مانگی۔ بریگیڈیئر نے مالی معاوضہ ادا کرنے کی آفر بھی کی جسے عبداللہ شاہ مظہر نے شکریہ کے ساتھ ٹھکرا دیا۔
عبداللہ شاہ مظہر رہائی کے بعد کراچی واپس آ گئے اور کسی قسم کا بدلے لینے کی خواہش کے بغیر معمول کی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔
یہ کالم روزنامہ جدوجہد کے اس لنک سے لیا گیا ہے۔
“