بشریٰ رحمن کی ماہیا نگاری
اردو ادب و صحافت کی دنیا میں بشریٰ رحمن ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ادبی دنیا میں انہوں نے فکشن کے ذیل میں ناول،ناولٹ،افسانہ نگاری میں اپنے فن کا کمال دکھایا تونان فکشن میں سفر نامہ نگاری میں ان کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔صحافت و سیاست کی دنیا میں اپنی نمایاں پہچان بنائی۔کالم نگاری کی تو کالموں کے مجموعے کتابی صورت میں بھی شائع کرائے۔سیاسی و سماجی سطح پر بے شمار تقریبات،کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی۔سیاست کی دنیا میں داخل ہوئیں تو اسمبلیوں تک پہنچیں اور ان ایوانوں میں بھی ان کی آواز گونجنے لگی۔ساری سیاسی و سماجی تقریبات میں انہوں نے جو تقاریر کیں،ان کا ایک بڑا حصہ بھی بعد میں کتابی صورت میں شائع کیاگیا۔ یوں انہوں نے جہاں ادب و صحافت کو ایک خاص سطح پر یک جا کردیا وہیں انہوں نے تحریرو تقریر کو بھی ہم آمیز کردیا۔بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں تحریرو تقریر پر یکساں قدرت حاصل ہوتی ہے۔
نثر میں فکشن اور نان فکشن میں لگاتارلکھنے کے ساتھ نسبتاََ کم سہی لیکن بشریٰ رحمن نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔شاعری میں نظم و غزل کے ساتھ انہوں نے اردو ماہیے بھی کہے۔ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘شائع ہوچکا ہے۔اور اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ’’جوگن بن گئیں آنکھیں‘‘ شائع ہونے جا رہا ہے۔
بشریٰ رحمن کی ماہیا نگاری میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلولوک روایت کی اوٹ سے مسلسل اپنی جھلک دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ان کے ماہیوں میں حج،عمرہ اور روضۂ رسولؐ کی نسبت سے ارضِ حجاز سے ان کی محبت و عقیدت جھلکتی ہے تو دوسری طرف ارضِ پاک سے ان کی غیرمتزلزل وابستگی سامنے آتی ہے۔بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم سے لے کر یہاں کے عوام تک ان کی محبت ان ماہیوں سے چھلکتی جاتی ہے۔سیاست کے خار زار میں آنے کے بعد انہیں جو مثبت و منفی تجربات ہوئے،ان کابیان بھی کہیں کہیں جھلک دکھلاتا ہے۔اس نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں۔ پہلے دینی جذبے۔
ست رنگی زردہ ہے
رب کا جہاں گھر ہے
وہاں کالا پردہ ہے
کیا خوب صدائیں ہیں
مکے میں ہر سو
جنت کی ہوائیں ہیں
دل درد کی دولت ہے
آکے ذرا دیکھو
یثرب ہے کہ جنت ہے
قائدِ اعظم محمد علی جناح سے لے کر اُن کے بعد کی سیاست اور سیاسی قیادت کے حوالے سے بشریٰ رحمن کے یہ ماہیے پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت کے دل کی آواز لگتے ہیں۔
دل برِاعظم ہے
میرا لیڈر تو
بس قائداعظم ہے
لیڈر ہی نصیب نہیں
نعمتیں ساری ہیں
میرا ملک غریب نہیں
یہ کیسی سیاست ہے
سفلہ راج کرے
اور روتی شرافت ہے
اک جوڑا موروں کا
حاکم ہیں جتنے
یہ ٹولہ ہے چوروں کا
کرسی کی کہانی ہے
جیل کے اندر بھی
کیا شام سہانی ہے
یہ ماہیے بشریٰ رحمن کی ان موضوعات سے خاص وابستگی کو ظاہر کرتے ہیں۔تاہم بشریٰ رحمن کے ماہیوں کا بنیادی اور عمومی موضوع وہی ہے جو ماہیے کا بھی عمومی موضوع ہے یعنی محبت ۔
محبت کا مضمون کہیں مشاہدہ کی سطح پر اور کہیں تجربہ کی سطح پر بشریٰ رحمن کی ماہیا نگاری میں بے حد نمایاں ہے۔انسانی زندگی میں محبت کے تجربات میں جونشیب و فراز آتے ہیں۔ہجر،وصال، دھوکہ، فریب، دلداری،وفاداری،بے وفائی،ظالم سماج،معاشرتی حیثیت میں تفریق،سماجی قدروں اور محبت کی خواہشات کے درمیان پائی جانے والی کشمکش ،غرض محبت سے جڑے ہوئے ایسے کتنے ہی معاملات بشریٰ رحمن کی ماہیا نگاری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان ماہیوں میں تجرباتی سطح پر اتنی لچک سے ہلکا پھلکا فائدہ اٹھایا گیا ہے جتنی پنجابی ماہیے کی زبان میں لچک ملتی ہے۔ تاہم بشریٰ رحمن نے اردو کے مزاج کو زیادہ سے زیادہ ملحوظ رکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔محبت کے موضوع سے متعلق بشریٰ رحمن کے چند ماہیے یہاں پیش ہیں۔پہلے محبت کی وہ کیفیات جو اول اول مسحور کرتی رہتی ہیں۔
اتنی ہی کہانی ہے
بہتے پانی پر
لہراتی جوانی ہے
پھولوں کا سرہانہ ہے
تھوڑا ادھر دیکھو
اک سپنا سجانا ہے
پھَڑ میرا گُٹ ماہیا
مجھ کو پتنگ بنا
میری چاہت لُٹ ماہیا
محبت کی اسی کیفیت سے گزرتے ہوئے کہیں گلوں ،شکووں کا دور آنے لگتاہے۔تاہم اس میں بھی محبت کی اہمیت قائم رہتی ہے۔ایسے چند ماہیے دیکھیں۔
ہم بندے سادے ہیں
صاف بتا دو نا
اب جو بھی ارادے ہیں
کوئی ساگر بہتا ہے
میری آنکھوں میں
اک رت جگا رہتا ہے
پیروں میں پائل ہے
دل نہ دُکھا ماہیا
دل پہلے ہی گھائل ہے
کھڑکی میں چندا ہے
عشق نہیں آساں
یہ روح کا پھندہ ہے
کوئی بولے یا ناں بولے
ہم نے نبھائی ہے
تیرے بھید نہیں کھولے
گلوں،شکووں کے ساتھ جب زندگی کے حقائق اور محبت کے معاملات میں الجھاؤ زیادہ واضح ہونے لگتے ہیں تو جیسے عشق و محبت فلسفیانہ رنگ میں ڈھلنے لگتے ہیں۔
بچے کا بستہ ہے
عشق کی راہوں کا
تاریک سا رستہ ہے
انگور کا دانہ ہے
ہنسنا بھی تو یہاں
رونے کا بہانہ ہے
تم کیسی پہیلی ہو
زندگی! بتلاؤ
دشمن ہو؟ سہیلی ہو؟
دُنیا کو بتانا ہے
پیار، محبت تو
جینے کا بہانہ ہے
سونے کا ہے دروازہ
حسن کے چہرے پر
ہے عشق بھرا غازہ
دریا ہے گلابوں کا
جیون کیا ماہیا
قصہ ہے سرابوں کا
یہ موضوعاتی نشان دہی محض میری اپنی تفہیم ہے،اس کی مزید پرتیں ہو سکتی ہیں جنہیں دوسرے قارئین شاید مجھ سے زیادہ بہتر سمجھ سکیں۔بشریٰ رحمن کے ماہیوں میں گھریلو رشتے مائیکے سے لے کر اولاد تک،اوربھائیوں سے لے کر سسرال تک محیط ہیں۔ان ماہیوں میں ان کے مشاہدات و تجربات صاف دکھائی دیتے ہیں۔اسی طرح عام زندگی کے مسائل اور دکھ سکھ بھی کسی نہ کسی رنگ میں بشریٰ رحمن کے ماہیوں میں اپنی جھلک دکھلاتے ہیں۔حالیہ چند برسوں میں الیکٹرونک میڈیاکا ٹی وی چینلزسے کمپیوٹرتک اورسمارٹ فون سے سوشل میڈیا تک پھیلاؤ جس طرح حیرت انگیز بلکہ زلزلہ انگیز تبدیلیاں لے کر آیا ہے اور ان تبدیلیوں کا سلسلہ کہیں رُکتا دکھائی نہیں دے رہا۔بشریٰ رحمن اس سارے منظر کو حیرت کے ساتھ دیکھ رہی ہیں،اس سے حسبِ توفیق استفادہ بھی کر رہی ہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔اسی دوران کہیں ان کے دل سے بے ساختہ یہ آواز آتی ہے جو ہم جیسے بہت سارے پُرانے ہوتے ہوئے لوگوں کے دل کی آواز لگنے لگتی ہے۔
مجھے بیر نہیں کوئی
نئے زمانے کا
سر پیر نہیں کوئی
بشریٰ رحمن کے ماہیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے خوشی ہوئی ہے۔ان کی ماہیا نگاری شروع سے ہی اردو ماہیا کے فروغ میں اپنا کردار اداکرتی آرہی ہے۔اب یہ ماہیوں کا مجموعہ ’’جوگن بن گئیں آنکھیں‘‘شائع ہونے جا رہا ہے تو اس کا مجموعی تاثر زیادہ بہتر طور پر اردو ماہیے کے فروغ اوراس کی تقویت کا موجب بنے گا۔مجھے امید ہے کہ بشریٰ رحمن کی دوسری مختلف النوع تخلیقات اور تصنیفات کی طرح ان کے ماہیوں کا یہ مجموعہ بھی اردو دنیا میں قبولیت اور مقبولیت حاصل کرے گا۔انشاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔