گزیٹر آف پشاور 1897-98ء کے حوالہ سے اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں: ’’شاہی لشکر کو حقیقتاً بہت کم کامیابی حاصل ہوئی اور آخرِکار اورنگ زیب نے مجبور ہوکر پٹھانوں کی وہ شرائط تسلیم کیں کہ جن سے اُن کی آزادی برقرار رہی اور وہ اپنا لشکر واپس ہندوستان لے گیا۔‘‘
اورنگ زیب کو قبایلی علاقہ جات میں رہنے والے قبایل کی اسلام دوستی اور دینی جذبہ کا خوب علم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان سیدھے سادے لوگوں کے دلوں میں روحانی شخصیات اور اُن کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور ریاضت و بزرگی کا کس قدر پاس ہے۔ اس لیے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مرشد اور مشہور صوفی بزرگ حضرت بنور صاحب کے صاحب زادوں کو آلۂ کار بنا کر علاقہ سوات و بونیر میں تبلیغی مشن پر بھیجا۔ انھوں نے لوگوں کو اورنگزیب کے مقابلہ میں پُرامن رہنے پر آمادہ کیا۔ انھیں اورنگ زیب کی پارسائی اور بزرگی کے مژدے سنائے۔ اورنگ زیب نے حکمت عملی سے کام لے کر ان پر بنوری صاحب کے صاحب زادوں کے لیے دایمی وظیفہ مقرر کرکے انھیں دایمی ثواب کا چسکا دیا۔ جائیداد کے حساب سے ہر گھرانہ سے مقررہ سالانہ نذرانہ یوسف زیٔ عمایدین نے تسلیم کیا اور ایک روپیہ جائیداد زرعی (تقریباً ایک جریب) پر ایک روپیہ وظیفہ حضرت بنور کی اولاد کے لیے منظور کرلیا۔ آج بھی ان علاقوں میں بابا اور پیروں کے نام دڑی کلیان ہی میں دانوں سے دیا جاتا ہے جب کہ ستھانہ دار خاندان کے بزرگوں کو تبرکاً نقدی اور دانوں دونوں کی شکل میں دی جاتی ہے، جسے مقامی بولی میں شکرانہ کہتے ہیں۔
اورنگ زیب کو قبایلی علاقہ جات میں رہنے والے قبایل کی اسلام دوستی اور دینی جذبہ کا خوب علم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان سیدھے سادے لوگوں کے دلوں میں روحانی شخصیات اور اُن کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور ریاضت و بزرگی کا کس قدر پاس ہے۔
جیون خان طاؤس خیل امان زیٔ جو اخون سالک اور بہاکو خان کی معیت میں قوم ڈوما سے نبرد آزما تھا، اس کے بعد قبیلے کی قیادت اس کے لڑکے مصری خان نے سنبھالی تھی۔ اُس نے بڑی استقامت سے اپنے قبیلے کی قیادت کی۔ خوشحال خان سے کشمکش میں وہ کمال زیٔ اور امان زیٔ قبایل کی حفاظت کرتا رہا مگر جب خوشحال خان بری طرح مغل پنجہ میں پھنس گیا، تو اس کے خاندان کو سیکری میں پناہ دینے میں پیش پیش رہا، لیکن آخر وہ بھی اپنی خاندانی رقابت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مغل صوبیدار اللہ داد خویشگی کو اپنا ہم نوا بناکر اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ مصری خان کا وجود مغل حکومت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اُسے سازش کے تحت تربوز میں زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ اللہ داد خویشگی اُس وقت لنگر کوٹ قلعہ میں تھا۔ اورنگ زیب کو مصری خان کی موت کی خبر پہنچی، تو اس نے سخت پریشانی کا اظہار کیا۔ مصری خان کے بیٹے صاحب خان نے اپنے باپ کا انتقام لینے کے لیے سادات سوات و بونیر سے امداد طلب کرکے ایک عظیم لشکر تیار کی۔ اورنگ زیب نے اس خطرناک معرکہ کو دفع کرنے کے لیے حاکم لنگر کوٹ کو معطل کردیا اور صاحب خان کو منانے کے لیے اسے دربار میں بلا کر اظہارِ ہمدردی و اظہار تعزیت کی اور اُس کی دل جوئی کے عوض اُسے جاگیر سے نوازا۔ الغرض اورنگ زیب تلوار کی نوک پر علاقہ یوسف مندنڑ خصوصاً سرحدی قبایل کو رام کرنے میں ناکام رہا۔ اگرچہ وقتی طور پر گرفتاریاں ہوئیں اور کچھ لوگوں کو جیل خانوں میں نظر بند رکھا گیا۔ باجوڑ کو صوبہ کی حیثیت دے کر سخی عرب کو گورنر مقرر کیا گیا۔ یہاں سے اس کا سوات اور دیر پر اثر و رسوخ بھی قایم رہا، لیکن عملی طور پر علاقے بالکل آزاد و خود مختار رہے۔ علاقہ خدوخیل تو خصوصاً سارے یوسف زیٔ میں اہمیت کا حامل اور صاحب جاہ و حشمت خطہ رہا۔ کیوں کہ سارے یوسف زیٔ کے افتخار کا تاج اسی علاقہ کے سپوت بہاکو خان کے سر سجا رہا۔ عہد مغلیہ میں اس قبیلہ کی بڑی اہمیت رہی۔ وقتاً فوقتاً خدوخیل کے سرداروں نے اپنی دانش مندی اور اعلیٰ قیادت کے بل بوتے پر اپنے قبیلہ کے ساتھ ساتھ سارے پختون خوا پر اپنی حکم رانی جتانے اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر لانے میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں۔ اپنی سابقہ روایات کی پاس داری کرتے ہوئے مستقبل میں بھی ایسے سپوت پیدا کیے جو نہ صرف سارے پختون خوا کی حفاظت کرتے رہے بلکہ سکھ اور انگریز کے لیے قہرِ الٰہی بن کر ان کے پرخچے بھی اڑاتے رہے۔ بہرحال اورنگ زیب اور خوشحال خان کشیدگی نے یوسف زیٔ مغل دوستی اور دشمنی کے تمام حقایق اِفشا کر دیے۔
اورنگ زیب1707ء میں اکیانوے سال کی عمر میں احمد نگر کے مقام پر وفات پائے۔ ان کے بعد مغل اقتدار آپس کے اختلافات کی نذر ہو کر روبہ زوال ہونے لگی۔ اس لیے یوسف زیٔ علاقوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ یوسف زیٔ بھی بیرونی جھگڑوں اور خطرات سے تو محفوظ رہے، لیکن اُن کا پہلے جیسا استحکام اور وحدت نہیں رہی۔ وہ اب نفسانفسی اور قبایلی اختلافات کا شکار ہونے لگے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق سارا معاشرہ انتشار کا شکار ہوا اور زیردست طبقے بالادست طبقات کے رحم و کرم پر رہنے لگے