کل سلک بینک کے ایک مبلغ کریڈٹ کارڈ کی تبلیغ کے سلسلہ میں آفس میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میں سلک بینک سے ہوں، کیا آپ کریڈٹ کارڈ بنوائیں گے؟ میں کام کر رہا تھا لہذا کام کرتے کرتے جواب دیا کہ نہیں کیونکہ ہر قسم کے بینک کے ایسے مبلغین یونیورسٹیوں میں خصوصی گشت پر رہتے ہیں لہذا انہیں ناں کرنا ایک معمول کی بات تھی۔
لیکن وہ صاحب صرف ناں پر راضی نہ ہوئے اور کیوں کے پیچھے پڑ گئے۔ میں نے کہا کہ یہ سودی معاملہ ہے، اس لیے میں کریڈٹ کارڈ بنوانا نہیں چاہتا۔ وہ اب بھی راضی نہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میرے ساتھ ڈائیلاگ کریں اور ثابت کریں کہ یہ سود ہے۔ میں نے کہا کہ میں تو ایسے بندے سے شرعی مسئلے میں ڈائیلاگ نہیں کروں گا کہ جس کا میدان شریعت نہیں بینکنگ ہے۔ آپ نے اگر کوئی بات چیت کرنی ہے تو کوئی عالم دین لے آئیں کہ جسے میری بات کم از کم سمجھ آ جائے اور مجھے اس کی بات سمجھ آ جائے کہ شریعت کی ایک لینگویج ہے جیسے میتھس اور بائیالوجی کی ایک لینگوئج ہے جو انہی کو سمجھ آتی ہے جو اس فن کے ماہر ہیں۔
وہ کہنے لگے کہ میں نے حافظ سعید صاحب کا کریڈٹ کارڈ بنوایا ہے، اب آپ کو اور کیا دلیل چاہیے۔ میں نے کہا کہ بھئی، حافظ سعید صاحب سے ایک پرچی پر لکھوا کر لے آئیں کہ کریڈٹ کارڈ بنوانا حلال ہے تو میں آپ کو دس بندوں کے کریڈٹ کارڈ بنوا دوں گا۔ خیر، انہوں نے کہا کہ میں یہ تو لکھوا کر لا سکتا ہوں کہ انہوں نے مجھ سے بنوایا ہے لیکن یہ نہیں لکھوا کر لا سکتا کہ کریڈٹ کارڈ حلال ہے۔ خیر، اگر وہ صاحب لے بھی آتے تو میں بھی الدعوۃ کے کارکنان کی منتیں ہی کرتا کہ حضرت حافظ صاحب اسے حلال کہہ رہے ہیں، کوئی دس پندرہ تو بنوا ہی لو۔
اس نے کہا کہ آپ نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے جو رقم ادھار لی ہے، وہ وقت میں ہی مثلا چالیس دن میں ہی ادا کر دیں تو کوئی سود نہیں پڑتا۔ میں نے کہا کہ یہ سودی معاہدہ تو ہے ناں کہ ہر کریڈٹ کارڈ لینے والا یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر وقت پر ادائیگی نہ کی تو اتنا سود ادا کرے گا۔ تو سودی معاہدہ تو سب نے کر لیا۔ اب ذرا عملی صورت حال کو دیکھو تو کیا ایسا نہیں ہے کہ نوے سے پچانوے فی صد لوگ کریڈٹ کارڈ سے ادھار لی گئی رقم وقت پر ادا نہیں کر پاتے اور سود میں چلے جاتے ہیں تو اس نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے، اور خواہشات لا محدود ہیں، خواہشات کے پورا ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ پیسے کا نہ ہونا ہے، وہ آپ نے اس کو ادھار دے دیا ہے۔ اب وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر خریداری کرے گا اور سود میں پھنس جائے گا۔ آپ تو لوگوں کو کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ اس نے کہا ہم تو لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یونیورسٹی میں جس فیکلٹی کے پاس آپ چکر لگا رہے ہیں، ان کی بنیادی تنخواہ الحمد للہ، اتنی ہے کہ بنیادی ضرورتیں پوری ہیں، آپ تو انہیں خواہشات پوری کرنے کے لیے قرض لینے کی تبلیغ کر رہے ہیں اور خواہشات ان کی لامحدود ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بتلائیں کہ کیا شریعت نے قرض لینے کو پسند کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس کی جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جو مقروض فوت ہو جاتا اور آپ لوگوں کو مقروض ہو کر مرنے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔
میں نے کہا اگر آج کوئی بھائی، اپنے سگے بھائی کو قرضہ نہیں دیتا بلکہ پیسہ چھپاتا پھرتا ہے کہ کہیں مانگ ہی نہ لے تو بینک اتنا مہربان کب سے ہو گیا ہے کہ لوگوں کی منتیں کرتا پھرے کہ بھئی قرضہ لے لو، قرضہ لے لو۔ یہ ساری گیم آپ کے علم میں ہے کہ آپ لوگ کس طرح لوگوں کو سودی شکنجوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو اتنا ہی لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی فکر ہے تو مالی، گارڈ اور صفائی کرنے والے کو کریڈٹ کارڈ کیوں نہیں پیش کرتے، وہ آگے سے خاموش۔ میں نے کہا میں ذاتی طور ایسے فیکلٹی ممبرز کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے آپ جیسے مبلغین کے جھانسے میں آ کر کریڈٹ کارڈ بنوا لیا اور اب انہیں گالیاں دیتے ہیں کہ ہمیں بتایا ہی نہیں، اس میں تو یہ بھی چارجز تھے اور وہ بھی، اور یہ اس سود کے علاوہ تھے جو انہوں نے ادا کرنا تھا۔ لیکن کیا کریں، ہمارے ہاں مولانا طارق جمیل صاحب کے تعلیمی اداروں میں تبلیغ پر تو پابندی لگا دی گئی ہے لیکن ان ڈاکوؤں کو کوئی نہیں روکتا جو عین قانون کے مطابق آپ کا پیسہ لوٹ کر لے جاتے ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“