اردو تراجم کا کم و کاست….
میں نے کچھ اہم تراجم کیے ہیں اس لیے اس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کر رہا ہوں.
1982 میں میں آٹھویں میں پڑھتا تھا جب ایک پرانی کتابیں بیچنے خریدنے والے کتاب فروش ریڑھی والے سے دس روپے میں محمد حسین ہیکل کی The Life of Muhammad کا ترجمہ حیاتِ محمد خریدا. اسے کئی بار پڑھا. ذرا بڑا ہوا تو میٹرک کی چھٹیوں میں اصل انگریزی کتاب پڑھی. چند پیرا گراف پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اردو ترجمے میں کئی الفاظ اور فقرات کا ترجمہ موجود نہیں ہے. بہرحال جیسے تیسے کرکے انگریزی کتاب مکمل کی. اب میرے ذہن میں کم و بیش دو الگ کتبِ سیرت کا مواد تھا نہ کہ ایک کتاب کا.
اباجان سے اس کا ذکر کرتا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ بیٹا اصل کتاب پڑھنی چاہیے اور ترجمہ پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے. چندے بعد میں ڈاکٹر محمد اسد کی The Road to Macca کا ترجمہ پڑھ رہا تھا کہ مجھے فوراً روکا اور اگلے دن لائبریری سے کتاب لاکر دی کہ اسے پڑھو. ہیکل نے مشرک کے انگریزی ترجمے کے لیے associationist کا لفظ گھڑا ہے. اس کا ذائقہ آج تک پرانا نہیں ہوا. ہٹلر کی Mein Kampf کا ترجمہ سال دو سال پہلے خریدا, اور دس منٹ کے بعد جو پہلا دوست نظر آیا اسے ہدیہ کرکے اپنی سردردی دور کرنے کا سامان کیا.
صاف بات ہے کہ تراجم کا اصل سے "ناوفادار" ہونا اردو میں ترجمہ کرنے والوں کی عمومی نااہلی ہی کی وجہ سے نہیں ہے. کئی بہت قابل ترجمہ کرنے والے روتے ہیں کہ اگر وہ کسی خاص کتاب کا درست ترجمہ کرتے ہیں تو اسے چھاپنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا. Martin Lings کی Muhammad میں ایسے کئی مقامات ہیں. ایڈورڈ سعید کی Oriantalism میں بھی دیکھ لیجیے. دور کیوں جائیے, حضرت شیخ الحدیث کی کتبِ فضائل میں صحابہ علیہم الرضوان کے دور کی ثقافت کے کئی واقعات میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بامحاورہ ترجمہ کرنے سے اس لیے رک جاتے ہیں کہ یہاں اردو والوں کی ثقافت اسے برداشت نہیں کرسکتی. مولوی نذیر احمد کا حال جو اردو والوں نے کیا, اس سے حضرت شیخ الحدیث نے سبق سیکھا اور نہایت اچھی ٹکسالی اردو جاننے کے باوجود عربی کے محاورات کا اردو محاورے میں ترجمہ کرنے سے باز رہے. ایک صاحب نے اقبال کے فارسی کلام کے ایک مشہور حصے کا اردو شعر میں ترجمہ کیا جس میں بقول مشفق خواجہ, اقبال کے فکری سقم دور کیے گئے تھے. مرنے کے بعد اقبال سوا لاکھ کا نہیں, سوا لاکھ مہینہ پر بِک رہا ہے.
اردو میں اچھا ترجمہ کرنے والوں میں میں شان الحق حقی صاحب کو سرِ فہرست سمجھتا ہوں. میرے والد عابد صدیق صاحب نے انگریزی ادب و تنقید کے کئی بہت اچھے بامحاورہ تراجم کیے ہیں. ڈاکٹر خورشید رضوی نے عربی سے اردو میں جو تراجم کیے ہیں ان کا علمی و لسانی پایہ ہر تحسین سے بالا ہے.
آج کی دنیا میں عاصم بخشی اور قیصر شہزاد اور اطہر مسعود کے ترجمے تکنیک اور اردوئیت کے ہر معیار پر پورے ہیں. ادریس آزاد کے اردو سائنسی متون پڑھ کر کبھی تشنگی نہیں رہی. جنابِ اجمل کمال کا تو قلم چوری کرکے لندن میوزیم میں بلکہ توپ کاپی میوزیم میں رکھانے کو جی کرتا ہے. عمر میمن اور صفدر رشید کے ترجمے بھی اہلِ بصیرت کے لیے سرمہ ہیں. اللہ ان سب دوستوں بزرگوں کو سلامت رکھے. یہ لوگ اور ان کے خواجہ تاش دورِ حاضر کی اردو کی آبرو ہیں.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“