میں پھنس گیا ہوں
ڈھلوانوں سے اونچائی کی طرف
امید سے ناامیدی کے راستے
سیارے کی خالی برتن کے اندھیرے کو
فانوسوں سے بھرتے
ہم ہڑبڑا جاتے ہیں اپنے ہونے سے
ہر روز کوئی چپکے سے
اپنے بطون سے نئی ان گنت الجھی بیلوں سے
جالے بن دیتا ہے
میں پھنس گیا ہوں
ایسے کسی داؤ میں
صدیوں سے پکڑ میں آئے لوگوں کے بیچ
جہاں رہ رہ کر
لے لو – کی صدائوں کا حصار ہے
جہاں بوٹ پالشیے
رہ رہ کر پسینہ پونچھتے ہیں
جہاں ریڑھی بان اپنے ہوکوں سے دبک جاتے ہیں
جہاں گدھا گاڑی کے پیچھے
سورج بندھا لڑھکتا جاتا ہے
جہاں رنگ انڈیلے آسمان میں
قطار در قطار کھانستے بیمار
چن چن کر
ڈاکٹروں کی دکانوں کے نقشے بنائے جاتے ہیں
فرقے..!
فرقوں کے گونا گون اقسام
نظریعے..!
نظریعوں کی تنگ نظری
میں پھنس گیا ہوں
ایسی تجریدی زندگی کے
کسی منظر کی آڑی ترچھی لکیروں میں
ایک وہ ہے جو
ہر دسویں مہینے کے بعد پھنستا ہے
ایک میں ہوں
ہر پانچ سال بعد پولنگ بوتھ کے باہر کھڑا ہوں
آپ کے پاس اگر
اریزر ہے تو مجھے قطار سے مٹا دو..!