(Last Updated On: )
جب کھانا سوئیاں بن جائے‘ سانپ اور درخت آپ کو مارنے کے لئے لپکیں تو واضح طور پر یہ سب کسی کے لئے بھی فوق الفطرت ہو سکتا ہے: جبکہ وہ سادہ سا ایک کسان تھا جس کے گھر میں ایک ایسا سمجھ دار نوکر رہ رہا تھا جو کہانیاں سننے کا اس حد تک شوقین تھا کہ پیٹ میں چھپی کہانیوں تک دسترس رکھتا تھا۔ہمیں اسے با لکل سادہ انداز سے دیکھنا چاہیے وہ ایک انفرادی انسان ہے جس کے وجود سے طلسم وابستہ ہے یہ طلسم اس کی زندگی کے ہر رخ پر ہاوی ہے جھونپڑی‘ بیابان‘ سانپ‘ درخت اور دریا کی گھناونی سازش اور کھانا جو سوئیوں کاروپ دھار گیااور وہ چار کہانیاں جو عرصہ سے کسان کے میں پیٹ میں مقید تھیں اور ایک روز نیند میں کسان کا پیٹ پھاڑ کر سامنے چلی آئیں اور انہوں نے جو کہا نوکر کے فہم نے خاموشی سے سنا جو کہ بالکل واضح تھاوہ پوری توجہ اور انہماک سے انہیں سنتا رہا اور ساری حقیقت بھانپ گیا۔وہ جانتا تھا کہ کہانیاں جو کہتی ہیں وہ ہمیشہ سچ ہوتا ہے۔اس لئے کہانیوں نے جو کہا یا اپنی حرکات و سکنات سے جو بتانے کی کوشش کی نوکر نے اس پر یقین کر لیا اور منتظر رہا حتی کہ کہانیوں کی سچائی خواب نما زندگی کی ظاہری صورت کی کھوکھلی حالت سے بازیاب ہو کر حقیقی دنیا میں لوٹ آئی اور وہ سب ایک ایک کرکے رو نما ہونے لگا جو وہ سن چکا تھا۔ چو نکہ وہ گھر پر کھانا کھاتے ہوئے ان پیکرانِ خیالی پر غور کر رہا تھا جو کسان کا پیٹ پھاڑ کر نکلے تھے اور یوں اس نے کچھ خاص پیچیدگیوں کے تحت جن کاعقلی جواز کسی کے پاس نہیں تھا اپنی ذہانت سے روٹی کے لقمہ کوکسان کے حلق میں نہ اترنے دیا۔اسے درخت‘ سانپ اور دریا میں ڈوبنے سے بچایا لیکن بعد ازاں اس حقیقت کے انکشاف پر جو خود اس کے اپنے پیٹ میں ایک عرصے سے مخفی تھی کی بناں پر‘ پتھر ہو گیا اور کسان نے اسے پتھر ہی بنارہنے دیا جبکہ جیسا کہ نوکر نے تقاضا کیا تھا کہ کسان کی بیوہ بہو کا بیٹا اگراسے چھو جاتا تو یہ پتھر ہوا انسان کہانی میں زندگی کی جانب لوٹ سکتا تھا اور جس کا کسان نے وعدہ بھی کیا تھا اور بعد ازاں منحرف ہو گیا۔
اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ جو بیان کیا گیا ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے جو عنوان ہو اہے۔ مثلا”اورکوئی بھی گونڈ عورت اور خواب پر بھروسا نہیں کر سکتا“آ پ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن داستان میں یہ کہیں بھی رقم نہیں ہوا۔کسی انسان کے لئے اس غیرمربوط اورسراسیمہ خواب ناک داستان کے مادے کو سچائی میں ڈھالنے کاکام مشکل ترین عمل ہو سکتا ہے، چاہے اس کا دائرہِ فہم بہت وسیع ہو لیکن جوان بیوہ اور ایک عقل مند نوکر کو کسی داستان میں ڈھا ل کر ان سے وابستہ عوامل کو چھپائے رکھنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔محبت کی اپنی ایک لافانی مہک ہے جسے دبائے رکھنا کسی مردہ وجود کی سرانڈ کو چھپانے سے بھی زیادہ مشکل عمل ہے۔ نوکر سمجھتا تھا کہ کہانیاں فقط اس سے مخاطب تھیں جبکہ وہ کسان سے بھی یکساں ہم کلام تھیں۔ ننھے بچے کوچھونے سے سارا سحر غارت ہو سکنے کی بات سے کسان خاص قسم کی حالت بے ِاطمینان، بے چارگی اور دہشت سے مغلوب ہوچکا تھا اور نوکر پرسے اس کا اعتبار جا تا رہا تھا جس نے کسان کے گھر میں نقب لگا ئی تھی، اورراز فاش ہونے کی صور ت نوکر کاپتھر ہونا ظاہر ہے ناگزیر تھا۔