مردم شماری کا کوئی فائدہ نہیں‘ بلاوجہ پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کتنی ہے۔ سادہ سا فارمولا ہے۔ مسلم لیگ(ن)‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی تینوںکے ساتھ اٹھارہ اٹھارہ کروڑ عوام ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ پاکستان کی آبادی 54 کروڑ ہے۔ شکر کریں کہ ابھی میں نے باقی پارٹیوں کو شامل نہیں کیا ورنہ آبادی ڈیڑھ دو ارب سے تجاوز کر گئی تھی۔ انیس سال بعد مردم شماری ہونے کا مطلب ہے کہ مردم شماری بھی بالغ ہو گئی ہے۔ مجھے تو اس لفظ 'مردم‘ پر بڑ ا اعتراض ہے، مردانہ مردانہ سا لگتا ہے حالانکہ مردم شماری میں خواتین بھی شامل ہیں۔ شاید اسی لیے اسے خانہ شماری بھی کہا جا رہا ہے۔ حاجی ببلو خالصتاً لاہوری لہجے میں اسے 'کھانا شماری‘ کہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ موجودہ مردم شماری کے نتیجے میں پاکستان کی آبادی بڑھی ہی ہو گی، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اٹھارہ کروڑ سے سولہ کروڑ پر آ گئے ہوں… اور یہی ہے تمام مسائل کی جڑ…!!
میں کنوارہ تھا تو کم پیسوں میں بھی بڑا اچھا گزارہ کر لیتا تھا۔ مجھے یاد ہے1998ء میں ایک معروف ڈائجسٹ میں بطور ایڈیٹر مجھے ساڑھے چار ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی اور میرے لیے ساری تنخواہ خرچ کرنا مسئلہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا کرایہ نکال کے بھی میری جیب بھری ہوتی تھی، انتہائی عیاشی کیا کرتا تھا مثلاً گامے کی دکان سے روزانہ ناشتے میں آلو والا پراٹھا کھانا‘ دوپہر کو تڑکا لگی دال ماش کھانا‘ شام کو بلا ناغہ گول گپے کھانا‘ ربڑی والا دودھ پینا۔ موٹر سائیکل اگرچہ سیکنڈ ہینڈ تھا لیکن میں اتنا امیر تھا کہ ہر تیسرے دن اُس میں ایک لٹر پٹرول ڈلوایا کرتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ… ایک بھی بہت ہے!! میری شدید خواہش ہوتی تھی کہ کاش میری ساری تنخواہ ختم ہو جائے اور میں اُسی کیفیت میں چلا جائوں جب میری خالی جیب ہوتی تھی اور لاہور کی بھری ہوئی سڑکیں۔
مجھے یاد ہے ایک دن میں نے صبح دفتر جانے سے پہلے بٹوے میں پیسے دیکھتے تو ایک سو روپے کا نوٹ باقی تھا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی‘ یعنی میں بالآخر اپنی تنخواہ ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا‘ میں نے تہیہ کر لیا کہ آج دفتر جانے سے پہلے ہی سو روپے کا یہ آخری نوٹ بھی ختم کر دوں گا۔ سوچا تو یہی تھا کہ یہ کام آدھے گھنٹے میں ہو جائے گا لیکن میں جو کچھ بھی خریدتا‘ پیسے پھر بھی بچ جاتے۔ ایک برگر لیا‘ ایک لٹر پٹرول ڈلوایا‘ تازہ جوس پیا‘ قلفی کھائی‘ ایک ڈبی سگریٹ کی خریدی لیکن پھر بھی پندرہ بیس روپے بچ ہی گئے۔ مجبوراً کچھ مالٹے خریدے اور حساب پورا ہو گیا۔ اب میری جیب خالی تھی اور دل تھا کہ خوشی سے بے قابو ہوا جا رہا تھا‘ بالآخر میں 'کنگال‘ ہو چکا تھا۔ اب میں دوبارہ سے مفلسی انجوائے کرنے کے لیے تیار تھا۔ دفتر پہنچا تو ایک منحوس ترین خبر میری منتظر تھی۔ میز پر ایک لفافہ پڑا ہوا تھا، میں نے دھڑکتے دل سے کھولا اور اپنا سر پکڑ لیا… آج یکم تاریخ تھی اور تنخواہ آچکی تھی۔
اب ایسا نہیں ہوتا‘ پہلے میں بھی سمجھتا تھا کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے لیکن مہنگائی کے ساتھ ساتھ میری آمدنی بھی تو بڑھ گئی ہے، پھر گزارا کیوں نہیں ہو رہا؟ اصل وجہ یہ ہے کہ اب میں اکیلا نہیں ہوں‘ اب میرے پاس ایک کمرہ نہیں پورا گھر ہے۔ اب مجھے پورا گھر چلانا پڑتا ہے۔ پورے ملک کا یہی مسئلہ ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی جگہ پر گھر ختم کرکے وہاں کھیت بنا دیے گئے ہوں لیکن یہ ضرور سنا ہو گا کہ کھیت ختم کرکے ہائوسنگ سوسائٹی بنا دی گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افراد بڑھتے گئے اور اشیائے ضروریہ کم ہوتی چلی گئیں۔گھر زیادہ اور گندم کم ہو گئی۔ کم ہوئی تو طلب اور رسد کے قانون کے مطابق مہنگی بھی ہو گئی۔ حبیب جالب کا واویلا 'بیس روپے کا من آٹا… اس پر بھی ہے سناٹا‘ مذاق لگنے لگا۔ یہ سب آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ روٹی ایک اور کھانے والے چار ہوں تو کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ بچے خدا کی نعمت ہوتے ہیں لیکن ان کی لائن لگتی ہے تو پھر اُسی وقت سمجھ آتی ہے جب مردم شماری ہوتی ہے اور بندہ خانہ شماری کرتے ہوئے عملے سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ 'بھائی جان! خانے ختم ہو گئے ہیں‘ باقی نام فارم کی پچھلی سائیڈ پہ لکھ دوں؟‘‘۔
کاش مردم شماری کے ساتھ ساتھ 'گندم شماری‘ کھیت شماری اور روٹی شماری‘ کا بھی انتظام ہوتا۔ کچھ تو پتا چلتا کہ کتنی فصلیں پک چکیں اور کتنی ہم 'پھک‘ چکے۔ یہ ہے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ۔آبادی کی رفتار بڑھنے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جو میاں بیوی آپس میں ہمیشہ ناراض رہتے ہیں ان کے ہاں بھی کاکوں کی آمد بلا تعطل جاری رہتی ہے۔ ایک صاحب کی بیگم چھ ماہ سے روٹھ کر میکے گئی ہوئی تھیں‘ ایک دن پتا چلا کہ ان کا آنگن ایک بار پھر بھرنے والا ہے‘ سہیلیوں نے پوچھا کہ تم تو شوہر سے روٹھ کر میکے آئی ہوئی ہو‘ پھر یہ معجزہ کیسے؟ منہ بسور کر بولی ''کمینہ کبھی کبھی معافی مانگنے آتا رہتا ہے‘‘۔ ایسی ہی معافیوں نے آبادی میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ پہلے کبھی ٹرین کے سفر کے دوران کھڑکی میں سے جابجا ایسے مقامات نظر آتے تھے جہاں بندہ نہ بندے کی ذات ہوتی تھی‘ اب ہر جگہ انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ ہم زیادہ ہو گئے ہیں اسی لیے کم ہو گئے ہیں۔
مردم شماری کا نتیجہ کبھی سو فیصد ٹھیک نہیں ہوتا، وہ لوگ جنہوں نے خفیہ طور پر دوسری شادی کی ہوئی ہے وہ کبھی اعتراف نہیں کریں گے‘ وہ بچے جو تاریک راہوں میں پیدا ہوئے وہ بھی اندراج سے محروم رہ جائیں گے‘ جن کا گھر سڑکیں ہیں وہ بھی 'م ش‘ کی نعمت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے… لیکن بہرحال اتنا اندازہ ضرور ہو جائے گا کہ کروڑوں میں ہماری تعداد کتنی ہے۔ کسی نے فرمایا کہ دل کی بھی مردم شماری ہونی چاہیے تاکہ پتا چل سکے کہ کس کے دل میں ''کتنی‘‘ محبتیں چھپی بیٹھی ہیں۔ آپس کی بات ہے علامہ اقبال جمہوریت میں بندے گننے کی بات کرتے رہے‘ ہم نے اس کی ذمہ داری مردم شماری پر ڈال دی۔
ٹی وی میں دیکھتے ہیں کہ ہر گھر کے باہر 'م ش‘ لکھ کر نمبر لگایا جا رہا ہے۔ وہ لوگ بہت خوش ہوں گے جن کا نام محمد شفیع‘ مرزا شکیل‘ مشتاق شیخ وغیرہ ہو گا۔ انہیں ایسا ہی لگے گا کہ ان کے نام کا مخفف گھر کے باہر لکھ دیا گیا ہے۔ کاش ہم مردم شماری کے ساتھ ساتھ مردم شناسی کا ہنر بھی سیکھ سکیں۔ ہمیں پتا چل سکے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون‘ کس نے پشت پہ خنجر گھونپنا ہے اور کون مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہو گا‘ کون ہماری ترقی پر خوش ہے اور کون اندر ہی اندر جھلس رہا ہے‘ کس نے ہمارے ساتھ رہنا ہے اور کون چھوڑ جائے گا‘ کون محض وعدے کرے گا اور کون اسے پورا بھی کرے گا۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس بار آبادی بائیس کروڑ عبور کر سکتی ہے۔ گھر اُتنا ہی ہے‘ بلکہ پہلے سے کچھ کم ہی ہو چکا ہے لیکن مکینوں کی تعداد دھڑا دھڑ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی چھوٹے گھر میں رہنے والے زیادہ ہو جائیں تو ڈرائنگ روم اور سٹور میں بھی چارپائیاں لگ جاتی ہیں بلکہ پیٹی کے اوپر بھی بستر بچھا کر بیڈ بنا لیا جاتا ہے۔ …اگر ہم بائیس کروڑ ہو چکے ہیں تو تشویش کی بات ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ پورا ملک ڈبل سٹوری بنانا پڑ جائے۔
کاش ہم مردم شماری کے ساتھ ساتھ مردم شناسی کا ہنر بھی سیکھ سکیں۔ ہمیں پتا چل سکے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون‘ کس نے پشت پہ خنجر گھونپنا ہے اور کون مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہو گا‘ کون ہماری ترقی پر خوش ہے اور کون اندر ہی اندر جھلس رہا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“