مرشد نے ایک سگریٹ سلگایا اور غور سے میری طرف دیکھا…'روزانہ کتنی چرس پیتے ہو؟‘۔ میرا ہاتھ کرسی سے پھسل گیا، سچ پوچھئے تو میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اتنے سیرئس ماحول میں مرشد ایسا سوال بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے بوکھلا کر جلدی سے کہا'لاحول ولاقوۃ…میں صرف سگریٹ پیتا ہوں‘ چرس نہیں پیتا، ‘۔ مرشد نے اطمینان سے اگلا سوال داغا'کیوں نہیں پیتے؟‘۔ میں نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا ۔ابھی میں کچھ مناسب الفاظ ڈھونڈ ہی رہاتھا کہ ان کی پھر آواز آئی'بہت سے رائٹر چرس پیتے ہیں‘۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میںیہاں نوکری کے لیے آیا ہوں یا چرس کے فوائد سننے۔ تاہم ایک بار پھر خود پر کنٹرول کیا اورنہایت تحمل سے کہا 'میں نے کہا ناں میں چرس نہیں پیتا‘۔ انہوں نے پہلو بدلا'یہی تو پوچھ رہاہوں کیوں نہیں پیتے حالانکہ شکل سے صاف لگتاہے کہ تم پانچ وقت کے چرسی ہو‘۔اب کی بار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، میرے منہ سے بے اختیار نکلا'شکل سے تو آپ بھی ایک وقت کے انسان لگتے ہیں‘۔یہ سنتے ہی مرشد کا چہرہ یکدم غصے سے سرخ ہوگیا، ایک دم سگریٹ ہونٹوں سے ہٹایا اور گھو رکر بولے'شپنگ شپانگ‘۔ میں سٹپٹا گیا، پتانہیں اس لفظ کا کیا مطلب تھا؟ مجھے لگا جیسے انہوں نے چینی زبان میں مجھے کوئی گالی دی ہے، یکدم میرا رویہ غضبناک ہوگیا،میں نے اپنا جلتا ہوا سگریٹ ان کے سامنے کیا اور دانت پیس کر کہا'دوبارہ ایسا کہا تو میں اپنی جلی ہوئی سگریٹ آپ کی ٹنڈ پر بجھا دوں گا‘۔یہ سنتے ہی ایک عجیب و غریب کام ہوا، مرشد نے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگایا اور اُٹھ کر مجھے گلے لگاتے ہوئے بولے'آج سے تمہاری نوکری پکی‘۔
یہ آج سے پندرہ سولہ سال پہلے مرشد سے میری پہلی ملاقات تھی۔ان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن جوں جوں ان کی ذات کی تہیں مجھ پر کھلتی چلی گئیں میں نے اُنہیں مرشد کہنا شروع کر دیا۔ مرشد ایک پروڈکشن ہائوس کے مالک تھے۔ڈرامے بناتے تھے اور مجھے انہوں نے بطور سکرپٹ رائٹر اپنے ہاں نوکری دی تھی۔خدا جانتا ہے پہلی چند ملاقاتوں میں مجھے وہ فاتر العقل لگے لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے مجھے لگا جیسے 'ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘۔ مرشد کا پسندیدہ تکیہ کلام 'شپنگ شپانگ‘ تھا اور وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے،لیکن جب بھی بہت زیادہ خوش ہوتے تو ان کے منہ سے یہی نکلتا…شپنگ شپانگ۔
مرشد انتہائی کھاتے پیتے انسان تھے، کروڑوں کی جائیداد کے مالک تھے، کئی مکان کرائے پر دیے ہوئے تھے۔ خود چار جماعتیں پاس تھے لیکن اتنے باکمال فنکار تھے کہ خوبصورتی کا ایک ایک زاویہ سمجھتے تھے۔قلم ہاتھ میں پکڑتے اور کاغذ پر شاہکار منتقل ہوجاتا۔کلام اقبال کے دیوانے تھے، اکثر اپنے کمرے میں اندھیرا کرکے ڈیک پر کلام اقبال لگا لیتے اور گردو نواح سے بالکل بے خبر ہوجاتے۔ گفتگو کے معاملے میں خبطی تھے، بولتے تو بولتے ہی چلے جاتے۔مجھے ان کے ہاں نوکری کرتے ہوئے ابھی دس پندرہ دن ہی ہوئے تھے کہ دفتر میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں اپنے کمرے میں سکرپٹ کے حوالے سے کوئی کام کر رہا تھا کہ اچانک مجھے مرشد کے اونچا اونچا بولنے کی آواز آئی۔میں چونک کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دفتر کے کاریڈور میں مرشد کے سامنے ایک مہین سا شخص عاجزی کی تصویر بنا کھڑا ہے اور مرشد اُس پر برس رہے ہیں' رانا صاحب! تین ماہ ہوگئے ہیں آپ نے ابھی تک کرایہ نہیں دیا، اگر ایک ہفتے تک آپ نے میرا کرایہ کلیئر نہیں کیا تو میں آپ کے گھر کا سارا سامان اٹھا کر سڑک پر پھنکوا دوں گا‘۔میرا دل دہل گیا، مرشد بالکل فرعون لگ رہے تھے۔ ان کے سامنے کھڑے ہوئے رانا صاحب نے لجاجت سے ہاتھ جوڑے'میں آپ کی منت کرتا ہوں، صرف ایک مہینے کا وقت دے دیں، میری بچی کی شادی ہے، اس کی شادی کے بعد میں آپ کا سارا کرایہ ادا کر دوں گا‘۔ مرشد پوری قوت سے چیخے'یہ آپ کا مسئلہ ہے، میرا نہیں‘ مجھے میرا کرایہ چاہیے‘…اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔میں دم بخود وہیں کھڑا تھا، رانا صاحب کچھ دیر اپنے آنسو صاف کرتے رہے، پھر ڈھیلے قدموں سے واپس لوٹ گئے۔ مجھے مرشد پر شدید غصہ آیا۔ اللہ نے اتنا کچھ دیا ہوا تھا پھر بھی کرائے دار پر یوں برس رہے تھے گویا ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ یہ ایک کرایہ دار ہے۔لیکن بہرحال یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا ‘ میں اس میں کیا دخل اندازی کرتا۔
اس دوران غالباً مرشد کی اپنی بیٹی کی بھی شادی تھی، انہوںنے اپنے اکائونٹنٹ کو میرے حوالے کیا اور حکم دیا کہ شہر کا بہترین شادی ہال بک کروایا جائے اور جہیز کے لیے فریج ‘ ٹی وی سمیت ہر چیز نئے ماڈل کی خریدی جائے۔اگرچہ یہ میرا کام نہیں تھا لیکن مرشد چونکہ باس تھے اس لیے مجبوری تھی۔ میں روزانہ اکائونٹنٹ کو ساتھ لے کر مرشد کی گاڑی میں نکل جاتا اور ہم شام تک ڈھیروں چیزیں خرید کر واپس آجاتے۔ لگ بھگ ڈیڑھ ہفتے میں ہم نے تین چار لاکھ کی شاپنگ کرلی۔ایک دن ہمیں آرڈر ملا دلہن کے لیے جیولری اور کپڑے بھی خریدے جائیں۔ اکائونٹنٹ نے جب یہ خبر مجھ تک پہنچائی تو میں پھٹ پڑا'میں سکرپٹ رائٹر ہوں یا تمہارے باس کا ذاتی ملازم، مجھ سے نہیں ہوتی یہ زنانہ شاپنگ، باس کی بیٹی کی شادی ہے تو انہیں کہو خود جاکر سامان خریدیں‘۔ اکائونٹنٹ نے میری بات سن کر اپنا سرکھجایا اور آہستہ سے بولا'وہ تو ٹھیک ہے لیکن باس کی بیٹی کی تو شادی نہیں، یہ تو وہ رانا صاحب کی بیٹی کے لیے خرید رہے ہیں‘۔میرے سر پر گویا بم سا پھٹ گیا…وہ…رانا صاحب…جنہیں مرشد کرایہ وقت پر نہ دینے پر ذلیل کر رہے تھے؟…جنہیں دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ایک ماہ تک کرایہ نہ دیا تو سامان باہر پھنکوا دیں گے…؟؟؟‘
پھر چشم حیرت نے یہ بھی دیکھا کہ رانا صاحب کی بیٹی کی شادی میں مرشد خود شریک ہوئے، تمام کام اپنے ذمے لیے، دلہن کو بہترین بیوٹی پارلر سے تیار کروایا‘ نکاح میں گواہ کے طور پر بھی سائن کیے اور پچا س ہزارروپے سلامی بھی دی ۔ میرا دماغ مائوف ہوا جارہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ خود رانا صاحب بھی مرشد کے رویے پر ششدر تھے۔ خیر انتہائی اچھے طریقے سے ہوگئی، رخصتی کے وقت میں بھی وہاں موجود تھا اور میں نے دیکھا کہ مرشد نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے رانا صاحب کی بیٹی کو رخصت کیا۔ہر شخص اتنے اچھے انتظامات پر رانا صاحب کی تعریفیں کر رہا تھا اور رانا صاحب میرے مرشد کی طرف دیکھ دیکھ کر زمین میں گڑے جارہے تھے تاہم مرشد اطمینان سے سگریٹ سلگائے کش پہ کش لگا رہے تھے۔ سب لوگ رخصت ہوگئے تووہ غضبناک انداز میں رانا صاحب کی طرف گھومے ''…اپنا وعدہ یادرکھئے گا‘ اگر ایک ماہ تک آپ نے میرا کرایہ ادا نہ کیا تو میں آپ کا سامان باہر پھنکوا دوں گا…خدا حافظ‘‘ اتنا کہا اور مجھے چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ گئے…میں نے دیکھا…رانا صاحب پتھر کی طرح ساکت کھڑے تھے…!!!
واپسی پر جب مجھے بھی کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ' مرشد! رہنمائی فرمائیں، آپ کے اس رویے کو کیا نام دوں؟‘ مرشد نے گاڑی چلاتے ہوئے کن انکھیوں سے میری طرف دیکھا، ایک آنکھ ماری اور بولے…'شپنگ شپانگ‘!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“