آج تک یہی طعنہ سنتے آئے ہیں کہ فیس بک پر لڑکے جعلی ناموں سے لڑکیاں بن کر اکائونٹ کھول لیتے ہیں حالانکہ یہ شرح لڑکیوں میں بھی کم نہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ اِن کا طریقہ واردات ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اگر آپ لڑکے ہیں اور آپ کو کسی انجان لڑکی کی طرف سے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ آئی ہے تو یقینا آپ خوشی سے ڈیڑھ گھنٹہ ایک ٹانگ پر رقص فرمانے کے بعد اس کا پروفائل ضرور دیکھنا پسند فرمائیں گے کہ بی بی اصلی ہے یا پیچھے کوئی اسلم چھپا بیٹھا ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ بی بی اصلی ہے۔ لیجئے پروفائل کھل گیا۔ اب آپ نے کرنا یہ ہے کہ جو کچھ لکھا ہوا ہے اس میں سے بغیر کچھ سوچے ہر لائن میں سے چھ نمبر کاٹ لینے ہیں۔ مثلاً اگر نام 'سونیا شیریں ‘ لکھا ہوا ہے تو چھ نمبر کاٹ کر اسے پڑھیں… یہ بنے گا… حمیداں بی بی‘ مختاراں‘ سرداراں‘ اُلفت‘ شکیلہ وغیرہ… اب تعلیم کا جائزہ لیں‘ تعلیم کے خانے میں اگر میڈیکل فائنل ایئر لکھا ہوا ہے تو چھ جماعتیں منفی کر دیں‘ یعنی ذہن میں بٹھا لیں کہ محترمہ نے میٹرک میں امتیازی نمبروں سے سپلی حاصل کی ہے۔ پیشے کے خانے میں اگر ڈاکٹر لکھا ہو تو سمجھ جائیں کہ دردِ شقیقہ کی مریض ہے۔ رہائش کے خانے میں شہر کی کسی ٹاپ کلاس سوسائٹی کا نام تحریر ہے تو آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں کہ لاری اڈے کے اردگرد کا علاقہ ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ بی بی آج کل کہاں مقیم ہیں… یقینا اِس خانے میں لندن‘ امریکہ یا کینیڈا لکھا ہوا ملے گا… یہاں بھی آپ پر فرض ہے کہ پڑھیں بے شک امریکہ لیکن تصور میں کوٹ مٹھن وغیرہ ہی رکھیں!!
یہ بیبیاں کبھی فیس بک پر اپنے چہرے کی تصویر نہیں لگاتیں‘ ہر
تصویر میں یہ چھپتی چھپاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض اوقات کئی لڑکیاں اپنی تصویر لگا بھی دیتی ہیں تاہم اس کے بعد اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کے فرینڈز میں صرف لڑکیاں ہی رہ جاتی ہیں۔ ان میں اکثر لڑکیاں فیس بک پر عجیب و غریب سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے نوجوانانِ ملت کو مصروف رکھتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں ایک بی بی نے ایک سوال پوچھا کہ 'ایک لڑکا مجھے اِن باکس میں محبت بھرے میسج بھیجتا ہے‘ کیا میں اسے ان فرینڈ کر دوں؟‘۔ اسی طرح ایک بی بی خاصے غصے میں نظر آئیں‘ انہوں نے لڑکے کے پیغامات کا سکرین شاٹ شیئر کر دیا کہ یہ دیکھیں اس کمینے لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کر دیا ہے۔ بندہ پوچھے‘ اگر آپ کسی سے اظہارِ محبت کر دیں تو کیا اسے بھی یوں سکرین شاٹ شیئر کرنے کا حق ہے یا اس کا توا ہی لگے گا۔ ایک محترمہ ہر کالم نگار کے کمنٹس میں اپنے کالم کا لنک لگا دیتی ہیں اور ساتھ ریکوئسٹ کر دیتی ہیں کہ پلیز اسے پڑھئے‘ لائک کیجئے اور کمنٹس دیجئے… دلچسپ بات ہے کہ یہ لنک وہ جس کالم کے کمنٹس میں پیسٹ کرتی ہیں خود وہ کالم پسند کرنا تو درکنار پڑھنا بھی پسند نہیں کرتیں۔
فیس بک نے جن خواتین کو گھر بیٹھے شاعرہ بنا دیا ہے ان کی پوسٹ پڑھنے لائق ہوتی ہے۔ ایک محترمہ نے شعر لکھا 'کاش میں آسمان بن جائوں… اور کاش تم پرندے بن کر میری طرف اڑتے ہوئے فوراً چلے آئو‘۔ نیچے واہ واہ کی لائن لگ گئی‘ ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا 'بانو قدسیہ کے بعد آپ ہی عظیم شاعرہ ہیں‘۔ ایک اور فین کا تبصرہ تھا 'سویٹ آپی! آپ کے اشعار بھی آپ ہی کی طرح خوبصورت ہیں اور اِن میںکہیں کہیں میر تقی میر کا رنگ جھلکتا ہے‘۔ خاتون نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سب نقادوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ ہولناک خوشخبری سنائی کہ اب وہ ہر ہفتے ایک غزل لکھا کریں گی۔ آج کل نہ صرف وہ باقاعدگی سے غزلیں لکھ رہی ہیں بلکہ گزشتہ دنوں موصوفہ نے اپنے متوالوں سے ایک سوال بھی پوچھا کہ شاعری کی کتاب چھپوانے کے لیے کون سا پبلشر بہتر رہے گا؟ جواب میں ڈیڑھ دو سو پروانوں نے مختلف پرنٹنگ پریس کے نام لکھ بھیجے…!!!
فیس بک کی ایسی لڑکیاں اپنے سٹیٹس کو بھی سٹیٹس سمبل سمجھتی ہیں تاہم اگر ان کے پانچ ہزار فرینڈز ہوں تو سب کو اِن باکس
میں ایک یاد دہانی ضرور کراتی ہیں کہ پلیز میرا پیج ضرور لائیک کیجئے۔ اِنہیں اپنی لوکیشن شیئر کرنے کا بھی جنون ہوتا ہے‘ یہ آئے روز فیس بک پر کرنٹ لوکیشن شیئر کرتی ہیں جس سے دیکھنے والے مزید متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کھاتی پیتی لڑکی ہے جو روز کسی نہ کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں پہنچی ہوتی ہے‘ حالانکہ اکثر یہ ریسٹورنٹ کے اندر نہیں بلکہ باہر کھڑی چنگ چی کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں یا ریسٹورنٹ کے ساتھ والی گلی میں پیکو کرانے گئی ہوتی ہیں۔ فیس بک کی یہ لڑکیاں ہوتی تو اصلی ہیں لیکن عموماً ان کا تمام تر بائیوڈیٹا نقلی ہوتا ہے۔ یہ فیس بک کی جنونی ہوتی ہیں‘ دن رات ان کا میسنجر Active ہی رہتا ہے‘ ان میں سے کئی لڑکیوں نے تہیہ کیا ہوتا ہے کہ خاوند لے کے ہی اٹھنا ہے۔ ان کے پاس سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے لیے اور کچھ نہ ہو تو کسی دور کے رشتہ دار کے بارے میں لکھ دیتی ہیں 'میرے خالو کے ماموں پھر وفات پا گئے ہیں‘ پلیز ان کے لیے ایک دفعہ فاتحہ پڑھ دیجئے‘… اور سٹیٹس کے انتظار میں ہلکان ہونے والے پوری عبارت پر غور کیے بغیر جھٹ سے اناللہ سے شروع ہو کر حوصلے کی تلقین کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اِن لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ کس بات پہ ٹولیاں بھاگتی ہوئی آئیں گی‘ لہٰذا یہ کبھی کبھار الجھا ہوا سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کر دیتی ہیں مثلاً 'بریک اپ‘۔ اب اس لفظ میں ایک ہزار جہان معانی پوشیدہ ہوتے ہیں لہٰذا لگ بھگ ایک ہزار ہی کمنٹس آ جاتے ہیں‘ جن میں زیادہ تر تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ دُکھ کی ان اتھاہ گہرائیوں میں وہ اپنی آپی کے ساتھ ہیں!!
ایسی لڑکیاں عموماً صرف مردوں میں ہی پاپولر ہوتی ہیں‘ ورنہ حرام ہے جو ان کی فرینڈ لسٹ میں کوئی تصویر والی لڑکی بھی نظر آئے۔ بظاہر یہ بہت دین دار بنتی ہیں‘ اقوال زریں لگاتی ہیں‘ اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں‘ تاہم ان کی پروفائل چیک کی جائے تو ان کی پسندیدہ کتاب 'میں مجبور تھی وہ ظالم تھا‘ نکلتی ہے اور جن فلموں کو انہوں نے لائیک کیا ہوتا ہے ان میں 'بے واچ‘ نمبر ون ہوتی ہے۔ انہیں ہر روز اپنی وال پر گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کا ڈیزائن لگانے کا بھی شوق ہوتا ہے‘ عموماً ایسی لڑکیاں گوگل سے اداس لڑکیوں اور تتلیوں کی تصویریں کاپی کرکے پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتی ہیں۔ یہ اکثر اپنے مہندی لگے‘ چوڑیوں والے ہاتھ کی تصویر بھی لگاتی ہیں حالانکہ تصویر کی ریزولوشن بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ کسی نہایت اچھے کیمرے سے کھینچی گئی ہے جو بہرحال ساڑھے تین ہزار والے موبائل کا نہیں ہو سکتا۔ یہ جو بھی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اس میں اُردو کی ایسی ایسی شاندار غلطیاں کرتی ہیں کہ فوراً ہی ان کی لیاقت ظاہر ہو جاتی ہے۔ ایک بی بی نے لکھا 'یہ شعر آج بھی میری ڈائری میں لکھا ہوا ہے کہ… 'بیچھڑا کچھ اس ادہ سے کے رُتھ ہی بدل گئی… ایک شاخص سارے شہر کو ویرآن کر گیا‘… نیچے کسی دل جلے نے لکھ دیا 'اچھا ہی ہوا کہ بچھڑ گیا ورنہ اس نے آپ کی اردو پڑھ کے خودکشی کر لینی تھی‘۔ فوراً آپی کے ایک ہمدرد نے غصے سے لکھا 'سوئیٹ آپی حکم کریں تو اس گستاخ کو مزا چکھا دوں؟‘… آپی نے متانت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً لکھا 'نہیں پیارے بھائی! ایسے ان پڑھ اور جاہلوں کے منہ لگنا مناسب نہیں…‘‘۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“